آپ کے شہر کا موسم کتنا گرم ہے؟
دنیا کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ جولائی 2019 تاریخ کا گرم ترین مہینہ بننے والا ہے اور کرۂ ارض پر جولائی کے درجۃ حرارت گذشتہ دس برس میں زیادہ رہے ہیں اگر موازنہ 1900-1880 سے کیا جائے جیسا کہ اس گلوب سے ظاہر ہے

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بچنے کے لیے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک روکے رکھنا ہو گا۔ یہ موازنہ وسیع پیمانے پر ہونے والی صنعتی ترقی سے پہلے سنہ 1850-1900 کے درجہ حرارت سے ہے۔
تب سے اب تک دنیا کا درجہ حرارت 1 ڈگری بڑھ گیا ہے.
سننے میں درجہ حرارت میں یہ اضافہ کچھ زیادہ نہیں لگتا لیکن موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بنائے گئے بین الاقوامی ادارے آئی پی سی سی کے مطابق اگر ملکوں نے درجہ حرارت میں اضافے کو محدود نہ رکھا تو ہمیں تباہ کن تبدیلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہو گا۔ ہمیں سخت موسم مثلاً قحط، گرمی کی لہر اور شدید بارشوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہماری چاول، مکئی اور گندم جیسی فصلیں اگانے کی صلاحیت خطرے میں پڑ جائے گی۔
اگر عالمی حدت آج کی شرح سے جاری رہے تو درجہ حرارت صدی کے آخر تک 5-3 سنٹی گریڈ بڑھ سکتا ہے۔
جانیے آپ کے شہر کے گرد کتنا علاقہ درجہ حرارت میں اضافے سے متاثر ہوا ہے اور مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے

برائے مہربانی اپنا براؤزر اپ ڈیٹ کریں۔
اس کو ذرا آسان بناتے ہیں۔ یہ لائن مہینے کی 10 سالہ اوسط دکھا رہی ہے۔ لیکن 2100 تک درجہ حرارت کتنا ہو گا؟
جنوری: 1900 سے {{temp}}سینٹی گریڈ {{diff}}
جولائی: 1900 سے {{temp}}سینٹی گریڈ {{diff}}
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صدی کے ابتدائی حصے میں ہی سب سے زیادہ حد تک پہنچنا ہوگا اور پھر تیزی سے کم ہونا پڑے گا۔
جنوری: 1900 سے {{temp}}سینٹی گریڈ {{diff}}
جولائی: 1900 سے {{temp}}سینٹی گریڈ {{diff}}
اخراج 2040 تک بلند سطح پر جائے گا اور پھر اس میں کمی آئے گی۔ یہ وہ لکیر ہے جسے لے کر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سیاسی مقاصد بنائے گئے ہیں۔
جنوری: 1900 سے {{temp}}سینٹی گریڈ {{diff}}
جولائی: 1900 سے {{temp}}سینٹی گریڈ {{diff}}
اگر موازنہ کیا جایے تو کچھ چیزوں کو لے کر یہ حالات میڈیم-لو حالات سے مشابہت رکھتے ہیں لیکن گرین ہاؤس گیسیں 2080 تک کم ہونا شروع نہیں کرتیں۔
جنوری: 1900 سے {{temp}}سینٹی گریڈ {{diff}}
جولائی: 1900 سے {{temp}}سینٹی گریڈ {{diff}}
یہ وہ بدترین حالات ہیں جن میں گیسوں کا اخراج پوری 21ویں صدی میں مسلسل ہوتا رہے گا۔ عالمی طور پر 2100 تک اس وجہ سے درجہ حرارت میں تین سے پانچ سینٹی گریڈ کے درمیان اضافہ ہو سکتا ہے۔
مستقبل نامعلوم حالات سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں سے کون سے حالات حقیقت سے قریب تر ہوں گے، یہ تو ممالک کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر منحصر ہو گا۔
اس سے کیا ہو سکتا ہے؟

80 لاکھ سے زائد آبادی کے حامل نیویارک کا شمار دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ لیکن شہر کو ساحلی سیلابوں اور طوفانوں سے خطرہ رہتا ہے جیسا کہ اکتوبر سے نومبر 2012 میں سمندری طوفان سینڈی کی شکل میں نظر آیا۔ مینھیٹن میں داخل ہوتے ہی طوفان سینڈی کی وجہ سے سب وے اور سرنگ نما سڑکیں زیر آب آ گئیں، بجلی کا نظام درہم برہم ہوا اور 50 سے زائد ہلاکتیں واقع ہوئیں۔
موسمی تبدیلی کی وجہ سے زیادہ شدید طوفانوں کی توقع ہے جو کہ زیادہ پانی زمین پر لا پھینکیں گے۔ اس سے سمندری سطح میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ نیویارک جیسے شہر جس کی ساحلی پٹی تقریباً 1500 کلومیٹر کی ہے، اُن شہروں کو موسمی تبدیلی کے اثرات سے بہت خطرہ لاحق ہے۔ امریکہ میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی سرکاری ایجنسی کے اندازے کے مطابق اس صدی کے وسط تک شہر کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ جس میں دس لاکھ افراد مقیم ہیں، سیلابی علاقوں میں ہوگا۔

آرکٹک موسمی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے انتہائی حساس ہے اور باقی دنیا کے مقابلے میں دوگنے رفتار سے گرم ہو رہا ہے۔ اسی لیے اسے گلوبل وارمنگ کے اثرات کے حوالے سے اہم ترین علاقہ مانا جا رہا ہے۔
دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح آرکٹک میں بھی ہوا اور پانی کا درجہِ حرارت بڑھ رہا ہے۔ مگر آرکٹک سمندر میں سمندری برف ہوتی ہے جو کہ موسمِ سرما میں پگلتی ہے اور سردیوں میں پھر جم جاتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے اس کے پگلنے کی رفتار اس کے واپس جمنے کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس کی کل مقدار میں کمی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آرکٹک میں دیگر علاقوں کے مقابلے میں درجہ حرارت میں زیادہ تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔

ایک کروڑ شہریوں والے انڈونیشیا کا دارالحکومت تیز ترین رفتار سے ڈوبنے والے شہروں میں سے ایک ہے۔ شہر کا شمالی حصہ 25 سینٹی میٹر فی سال کی رفتار سے ڈوب رہا ہے۔ یہ اتنا تیز ریٹ دو عوامل کی وجہ سے ہے، حد سے زیادہ پانی کا زمین سے نکالا جانا اور سمندری سطح میں اضافہ۔ 40 ارب ڈالر خرچ کر کے 32 کلومیٹر طویل ایک سمندری بند اور 17 مصنوعی جزائر تعمیر کیے جا رہے ہیں تاکہ شہر کو بچایا جا سکے۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک وقتی حل ہے۔ ان کی رائے میں زمین سے پانی نکالنے کا عمل 2050 تک رُک جانا چاہیے اور شہریوں کو پانی کے دیگر ذرائع پر انحصار کرنا سیکھنا ہوگا۔ تاہم سمندری سطح میں اضافہ ایک چیلنج رہے گا جیسا وہ دیگر ساحلی شہروں کے لیے ہے۔ سمندری سطح میں اضافہ پانی کے پھیلاؤ اور قطبین کی پگلتی برف کی وجہ سے ہے۔