ایک ٹڈّی وبائی بیماری کیسے پھیلاتی ہے
جنوبی ایشیا اور قرنِ افریقہ میں گذشتہ برس اور رواں برس کے آغاز میں تباہی مچانے والے صحرائی ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ دوبارہ افزائشِ نسل کے مرحلے میں ہیں اور ان کے ممکنہ حملے کی دوسری لہر سے انسانی خوراک اور اس سے جُڑی اشیا کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ یہ ربع صدی میں ٹڈی دل کا بدترین حملہ ہے۔ صورتحال اتنی سنگین کیسے ہوئی؟

اس طرح کی صحرائی ٹڈّی جو کہ ایک ٹڈے کی قِسم ہے، عموماً تنہائی پسند ہوتی ہے۔ یہ ایک انڈے سے نکل کر ایک نوجوان ٹڈی کی شکل اختیار کرتی ہے اور پھر یہ بالغ ٹڈیوں کے ہمراہ اڑنا شروع کرتی ہے۔

تاہم یہ صحرائی ٹڈیاں ایک من ترنگ انداز میں ایک تبدیلی کے دور سے گزرتی ہیں۔ جب یہ ایک بڑے ہجوم کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور سبز خوراک والا علاقہ کم پڑنے لگتا ہے تو پھر یہ تنہا رہنے والی مخلوق نہیں رہتیں اور اپنے خول سے باہر نکل کر ننھی ننھی وحشی مخلوق بن جاتی ہیں۔
اس نئے سماجی رابطوں کے دور میں اس کیڑے کے رنگ اور شکل میں تبدیلی آتی ہے، پھر یہ بڑے بڑے گروہوں کی شکل اختیار کرتی ہیں جوایک وبا کی مانند غارت گری کرنے والے جھنڈوں کی طرح پرواز کرتے ہیں۔
ایسے جھنڈ بسا اوقات بہت بڑے ہوسکتے ہیں۔ کسی ایک دن ان میں دس ارب سے زیادہ ٹڈیاں شامل ہو سکتی ہیں اور یہ سینکڑوں کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ یہ ٹڈی دل روزانہ 120 کلومیٹر کا سفر کر سکتے ہیں اور دیہی زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں جہاں یہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے ہر شے کھانا شروع کر دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت اور خوراک (ایف اے او) کے مطابق، ایک اوسط درجے کا جھنڈ انتی فصلیں تباہ کر سکتا ہے جو ڈھائی ہزار افراد کے لیے سال بھر کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق، سنہ 2003 میں شروع ہونے والے ٹڈیوں کے حملے میں جو دو برس تک جاری رہا، صرف مغربی افریقہ میں ڈھائی ارب ڈالر مالیت کی فصلیں تباہ ہوئی تھیں۔
تاہم سنہ تیس، چالیس اور پھر سنہ پچاس کی دہائیوں میں بھی بہت بڑی تباہی والے ٹڈیوں کے حملوں کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ ان میں ٹڈیوں کے کچھ جھنڈ تو کئی علاقوں میں پھیل گئے جس کی وجہ سے انھیں ایک وبا قرار دینے کی ضرورت سمجھی گئی۔
مجموعی طور پر ایف اے او کے مطابق، اس کرہ ارض پر ہر دس افراد میں سے ایک فرد کی زندگی ان ٹڈیوں سے متاثر ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ دنیا میں منتقل ہونے والی بدترین وبا قرار دی جاتی ہے۔
اس طرح کی صحرائی ٹڈّی جو کہ ایک ٹڈے کی قِسم ہے، عموماً تنہائی پسند ہوتی ہے۔ یہ ایک انڈے سے نکل کر ایک نوجوان ٹڈی کی شکل اختیار کرتی ہے اور پھر یہ بالغ ٹڈیوں کے ہمراہ اڑنا شروع کرتی ہے۔
تاہم یہ صحرائی ٹڈیاں ایک من ترنگ انداز میں ایک تبدیلی کے دور سے گزرتی ہیں۔ جب یہ ایک بڑے ہجوم کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور سبز خوراک والا علاقہ کم پڑنے لگتا ہے تو پھر یہ تنہا رہنے والی مخلوق نہیں رہتیں اور اپنے خول سے باہر نکل کر ننھی ننھی وحشی مخلوق بن جاتی ہیں۔
اس نئے سماجی رابطوں کے دور میں اس کیڑے کے رنگ اور شکل میں تبدیلی آتی ہے، پھر یہ بڑے بڑے گروہوں کی شکل اختیار کرتی ہیں جوایک وبا کی مانند غارت گری کرنے والے جھنڈوں کی طرح پرواز کرتے ہیں۔
ایسے جھنڈ بسا اوقات بہت بڑے ہوسکتے ہیں۔ کسی ایک دن ان میں دس ارب سے زیادہ ٹڈیاں شامل ہو سکتی ہیں اور یہ سینکڑوں کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ یہ ٹڈی دل روزانہ 120 کلومیٹر کا سفر کر سکتے ہیں اور دیہی زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں جہاں یہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے ہر شے کھانا شروع کر دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت اور خوراک (ایف اے او) کے مطابق، ایک اوسط درجے کا جھنڈ انتی فصلیں تباہ کر سکتا ہے جو ڈھائی ہزار افراد کے لیے سال بھر کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق، سنہ 2003 میں شروع ہونے والے ٹڈیوں کے حملے میں جو دو برس تک جاری رہا، صرف مغربی افریقہ میں ڈھائی ارب ڈالر مالیت کی فصلیں تباہ ہوئی تھیں۔
تاہم سنہ تیس، چالیس اور پھر سنہ پچاس کی دہائیوں میں بھی بہت بڑی تباہی والے ٹڈیوں کے حملوں کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ ان میں ٹڈیوں کے کچھ جھنڈ تو کئی علاقوں میں پھیل گئے جس کی وجہ سے انھیں ایک وبا قرار دینے کی ضرورت سمجھی گئی۔
مجموعی طور پر ایف اے او کے مطابق، اس کرہ ارض پر ہر دس افراد میں سے ایک فرد کی زندگی ان ٹڈیوں سے متاثر ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ دنیا میں منتقل ہونے والی بدترین وبا قرار دی جاتی ہے۔
سال | کمی | اضافہ | وبائی کیفیت |
2019 | 0 | 18 | 0 |
2018 | 0 | 0 | 0 |
2017 | 0 | 0 | 0 |
2016 | 5 | 0 | 0 |
2015 | 2 | 0 | 0 |
2014 | 7 | 0 | 0 |
2013 | 10 | 0 | 0 |
2012 | 9 | 0 | 0 |
2011 | 7 | 0 | 0 |
2010 | 4 | 0 | 0 |
2009 | 5 | 0 | 0 |
2008 | 8 | 0 | 0 |
2007 | 13 | 0 | 0 |
2006 | 1 | 0 | 0 |
2005 | 0 | 20 | 0 |
2004 | 0 | 23 | 0 |
2003 | 5 | 0 | 0 |
2002 | 0 | 0 | 0 |
2001 | 0 | 0 | 0 |
2000 | 2 | 0 | 0 |
1999 | 4 | 0 | 0 |
1998 | 7 | 0 | 0 |
1997 | 12 | 0 | 0 |
1996 | 15 | 0 | 0 |
1995 | 15 | 0 | 0 |
1994 | 13 | 0 | 0 |
1993 | 20 | 0 | 0 |
1992 | 5 | 0 | 0 |
1991 | 0 | 0 | 0 |
1990 | 3 | 0 | 0 |
1989 | 0 | 15 | 0 |
1988 | 0 | 0 | 26 |
1987 | 15 | 0 | 0 |
1986 | 12 | 0 | 0 |
1985 | 2 | 0 | 0 |
1984 | 0 | 0 | 0 |
1983 | 7 | 0 | 0 |
1982 | 5 | 0 | 0 |
1981 | 5 | 0 | 0 |
1980 | 6 | 0 | 0 |
1979 | 0 | 4 | 0 |
1978 | 0 | 15 | 0 |
1977 | 3 | 0 | 0 |
1976 | 9 | 0 | 0 |
1975 | 7 | 0 | 0 |
1974 | 11 | 0 | 0 |
1973 | 7 | 0 | 0 |
1972 | 5 | 0 | 0 |
1971 | 4 | 0 | 0 |
1970 | 7 | 0 | 0 |
1969 | 0 | 11 | 0 |
1968 | 0 | 25 | 0 |
1967 | 7 | 0 | 0 |
1966 | 2 | 0 | 0 |
1965 | 4 | 0 | 0 |
1964 | 6 | 0 | 0 |
1963 | 0 | 10 | 0 |
1962 | 0 | 29 | 0 |
1961 | 0 | 29 | 0 |
1960 | 0 | 0 | 44 |
1959 | 0 | 0 | 47 |
1958 | 0 | 0 | 41 |
1957 | 0 | 0 | 37 |
1956 | 0 | 0 | 35 |
1955 | 0 | 0 | 43 |
1954 | 0 | 0 | 40 |
1953 | 0 | 0 | 43 |
1952 | 0 | 0 | 27 |
1951 | 0 | 41 | 0 |
1950 | 0 | 33 | 0 |
1949 | 9 | 0 | 0 |
1948 | 12 | 0 | 0 |
1947 | 0 | 29 | 0 |
1946 | 0 | 36 | 0 |
1945 | 0 | 0 | 42 |
1944 | 0 | 0 | 47 |
1943 | 0 | 0 | 43 |
1942 | 0 | 0 | 35 |
1941 | 0 | 24 | 0 |
1940 | 0 | 6 | 0 |
1939 | 5 | 0 | 0 |
1938 | 3 | 0 | 0 |
1937 | 6 | 0 | 0 |
1936 | 6 | 0 | 0 |
1935 | 6 | 0 | 0 |
1934 | 0 | 9 | 0 |
1933 | 0 | 18 | 0 |
1932 | 0 | 0 | 27 |
1931 | 0 | 0 | 35 |
1930 | 0 | 0 | 45 |
1929 | 0 | 0 | 41 |
1928 | 0 | 0 | 34 |
1927 | 0 | 22 | 0 |
1926 | 0 | 8 | 0 |
ذریعہ: ایف اے او | |||
'کمی‘ اس دور کو کہیں گے جب ٹڈّیوں کی افزائش کم تعداد میں ہوتی ہے، جبکہ 'اضافہ‘ سے مراد وہ دور ہے جب ان کی افزائش کثیر تعداد میں ہوتی ہے، 'وبائی کیفیت‘ اس وقت قرار دی جاتی ہے جب ٹڈّی دل کے حملے ایک برس سے زیادہ عرصے تک جاری رہتے ہیں۔ جب وبائی کیفیت اپنے اختتام تک پہنچتی ہے تو اس دور کو 'زوال‘ کہا جاتا ہے۔ |
ٹڈیوں کے نئے جھنڈ تیار ہو رہے ہیں
رواں برس کے آغاز میں صحرائی ٹڈّی دل نے قرنِ افریقہ اور اس سے کہیں آگے کے علاقوں میں فصلوں اور جانوروں کے چارے وغیرہ کو تباہ کیا جس کی وجہ سے پورے خطے میں غذائی تحفظ خطرے میں ہے۔
ان تباہ کن حشرات نے جنوری اور فروری میں پاکستان
کے مختلف علاقوں کے علاوہ مشرقی افریقہ کے کئی
ممالک جیسے کہ کینیا، صومالیہ اور ایتھوپیا میں تباہی
پھیلائی۔ یہ کینیا میں گذشتہ 70 برس کی بدترین وبا بنی
جبکہ صومالیہ اور ایتھوپیا کے لیے 25 برس میں
بدترین حملے تھے۔
ایف اے او کو خدشہ ہے کہ مارچ اور اس سے آگے
کے مہینوں میں موافق حالات کی وجہ سے دوبارہ
ٹڈی دل کا حملہ ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ ایک
مرتبہ پھر لوگوں کے معاش کو ایسا خطرہ ہو
سکتا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
ایف اے او نے خبردار کیا ہے کہ اگرٹڈی دل پر
قابو پانے کی کوششیں نہ کی گئیں تو ٹڈیوں کی
تعداد میں 20 گنا اضافہ ہو سکتا ہے
اس وقت کئی ممالک ٹڈیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔

یہ مشرقی افریقہ کے لیے خصوصاً تباہ کن ثابت ہو سکتا
ہے جو کہ پہلے ہی تنازعات، خشک سالی اور سیلابوں
کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ کا شکار خطہ ہے۔ یہی
نہیں بلکہ یہ خطرہ ایران اور یمن پر بھی منڈلا رہا ہے
جہاں نئے ٹڈی دل تیار ہو رہے ہیں
مشرقی افریقہ میں ٹڈی دل پہلے ہی لاکھوں ایکڑ
رقبے پر موجود فصلوں اور چراگاہوں کو نقصان
پہنچا چکے ہیں
ایف اے او کے مطابق جب ٹڈی دل کا حملہ عروج پر تھا
تو یہ حشرات 350 مربع کلومیٹر علاقے میں تقریباً دو ٹن
فصلیں روزانہ کھا رہے تھے
ایف اے او کا خیال ہے کہ ٹڈیوں کا ایک اوسط سائز کا جھنڈ 40 کلومیٹر سے لے کر 60 کلومیٹر کے علاقے پر پھیلا ہو سکتا ہے۔
ایک ٹڈی کتنی خوراک کھا سکتی ہے؟

ایف اے او کے اہلکار کیتھ کریسمین کے مطابق کینیا
اور ایتھیوپیا میں ٹڈیوں کا نیا حملہ پہلے سے بھی بڑا
ہو سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پریشان کن تو ہے ہی
لیکن جس وقت میں یہ ہو رہا ہے اس سے برا وقت
نہیں ہو سکتا۔
'یہ ان ممالک میں بارشوں کے موسم اور شجرکاری
کا آغاز ہے۔ بیج بوئے جا رہے ہیں اور کونپلیں پھوٹ
رہی ہیں اور یہ ٹّڈی دل آ گیا ہے۔‘
کریسمین کے مطابق یہ بالغ ٹڈیاں جلد ہی انڈے دیں گی
جن سے ٹڈیوں کی نئی نسل نکلے گی جو فصلوں کی
کٹائی تک بالغ ہو جائے گی اور یوں فصلوں کو دوہرا
خطرہ لاحق ہے

ٹڈی دل کا بحران ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب دنیا
کورونا وائرس کا شکار ہے اور اسی وجہ سے مختلف
ممالک میں پابندیاں بھی نافذ ہیں جن سے آپریشن پیچیدہ
ہو گیا ہے۔
علی بِِلا واکو 68 برس کے کسان ہیں جن کا تعلق شمال مشرقی کینیا سے ہے۔ انھیں امید تھی کہ اس مرتبہ کی فصل انھیں اچھا فائدہ دے گی کیونکہ اس بار بارشیں زیادہ ہوئی تھیں اور خشک سالی ختم ہو گئی تھی۔
لیکن ٹڈّیوں نے اس کی مکئی اور لوبیے کی فصل تباہ کر دی۔
ان کا کہنا ہے کہ 'یہ ہماری اجناس کا بیشتر حصہ کھا گئیں اور جو بچا وہ خشک ہو گیا۔ اس سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے۔ ہم نے اپنی فصل پکتے دیکھی لیکن ہم اسے کھا نہ سکے۔‘
علی واکو نے اس سے پہلے ٹڈّی دل سنہ 1960 کی دہائی میں دیکھے تھے اور وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح یہ جھنڈ آسمان کو سیاہ کر دیتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ 'اتنی تاریکی ہو جاتی تھی کہ آپ سورج بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔‘
موسموں میں شدت پیدا ہونے کی وجہ سے اس بحران میں اضافہ ہوا ہے
ٹڈیوں کے موجودہ بحران کی وجہ 19-2018 میں ہونے والی شدید بارشیں اور آنے والے طوفان ہیں۔
صحرائی ٹڈیاں مغربی افریقہ سے لے کر انڈیا تک محیط تیس ممالک میں پھیلے خشک آب و ہوا والے خطے میں رہتی ہیں -- یہ تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مربع کلو میٹر کا رقبہ بنتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق دو برس قبل جنوبی عربی جزیرہ نما کے علاقے میں نمی والے سازگار حالات کی وجہ سے ٹڈیوں کی تین نسلوں کی افزائش ہوئی اور کسی کو اس کا علم نہیں ہو سکا
جھنڈوں کا موجودہ اضافہ سنہ 2018 سے شروع ہوا ہے

سنہ 2019 کے اوائل میں ٹڈی دل کی پہلی کھیپ نے یمن، سعودی عرب اور ایران کا رخ کیا، اور مشرقی افریقہ تک پہنچنے سے پہلے اپنی افزائشِ نسل بھی تیزی سے کی۔
مزید جُھنڈ پیدا ہوئے اور سنہ 2019 کے اواخر تک یہ اریٹریا، جبوتی اور کینیا تک پہنچ چکے تھے۔

موسمِ بہار میں افزائشِ نسل سے مشرقی افریقہ، یمن اور
جنوبی ایران میں آنے والے مہنیوں میں ٹڈی دل کے
حملوں کا خدشہ ہے۔
اگرچہ اس قسم کے جھنڈوں کے خلاف مزاحمت میں ناکامی ہوئی ہے باوجود اس کے کہ اس سے زمین کا ایک بہت بڑا رقبہ متاثر ہوتا ہے، تاہم ایف اے او کے کریسمن سمجھتے ہیں کہ ٹڈّیوں کے موجودہ جھنڈوں کے خلاف شروع دور میں بہت کچھ کیا جا سکتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ 'اگر ان ملکوں کے کچھ اہم علاقوں میں ان پر قابو پانے کی بروقت کاروائی کی جاتی تو نقصان کو کم کیا جا سکتا تھا۔‘
لوگ جھنڈوں سے نمٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں
اپنے سائز اور تباہی پھیلانے کی صلاحیت کے لحاظ سے قرنِ افریقہ میں ٹڈّیوں کے بےمثل حملوں کے بعد اب کئی ممالک ان سے لڑنے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔
ان پر قابو پانے کے لیے دو عوامل بہت اہم ہیں: ان کی نگرانی اور ان پر موثر کنٹرول۔
ایف اے او کے تحت صحرائی ٹڈیوں کی حرکات کا جائزہ لینے والے ادارے 'ڈیزرٹ لوکسٹ انفارمیشن سروس اس بارے میں پیشین گوئی کرتی ہے، انتباہ جاری کرتی ہے تاکہ پیش بندی کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ٹڈیاں کہاں ہیں، کہاں کہاں ان کی افزائش ہو رہی ہے اور یہ کہاں حملہ آور ہو سکتی ہیں یہ سب معلومات بھی یہ سروس فراہم کرتی ہے۔
لیکن جب ایک مرتنہ ٹڈّیوں کی افزائش ایک خاص تعداد سے بڑھ جاتی ہے، جیسا کہ قرنِ افریقہ میں ہوا ہے تو ان کی تعداد پر قابو پانے کے لیے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے اور ان کی مزید افزائش روکنے کی بھی ضرورت ہے۔
ٹڈّی دل پر کس طرح قابو پایا جاتا ہے

اگرچہ اس وقت تحقیق جاری ہے کہ ماحول خراب کیے بغیر ان ٹڈّیوں سے نمٹا جا سکے، فی الحال سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ کرم کُش ادویات کا چھڑکاؤ ہے۔
ان حشرات پر ہاتھ سے سپرے کرنے یا مشینوں سے سپرے کرنے یا ہوائی جہاز سے سپرے کرنے سے بڑے بڑے جھنڈوں کو نشانہ بنا کر کیمیائی ادویات کے ذریعے ایک چھوٹے سے وقت میں تلف کیا جا سکتا ہے
اسی وجہ سے ایف اے او اس وقت کئی حکومتوں کے
ساتھ مل کر کیڑے مار دوا کے فضائی چھڑکاؤ کی مہم
چلا رہا ہے۔
اب تک دس ممالک میں دو لاکھ 40 ہزار ہیکٹر
رقبے پر سپرے کیا جا چکا ہے اور اس کام کے لیے
سینکڑوں افراد کو تربیت بھی دی گئی ہے۔
کریسمین کے مطابق یہ مہم سال کے آغاز میں چلنے والی
مہم سے کہیں زیادہ موثر ہے اور کورونا وائرس کی وجہ
سے نقل و حرکت پر عائد پابندیوں سے بھی یہ آپریشن
زیادہ متاثر نہیں ہوا ہے۔

کریسمین کے مطابق دوردراز اور وسیع علاقے میں
حشرات کی اتنی بڑی تعداد کو قابو کرنا آسان نہیں۔
آپ نہیں کہہ سکتے کہ ٹڈیوں کی کتنے فیصد آبادی کو
کامیابی سے نشانہ بنا لیا گیا ہے۔
صومالیہ، ایتھوپیا اور کینیا اور ساتھ ساتھ پاکستان میں اب کیے گئے اقدامات اب حالات کی سمت کا تعین کر سکیں گے کہ آئندہ کیا ہو گا۔ اگر موجودہ حملوں کا سلسلہ مزید ملکوں کی سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور مزید خطوں کو برباد کرتا ہے تو پھر اسے وبائی کیفیت قرار دیا جا سکتا ہے۔
کریسمین کے مطابق 'اسی وجہ سے یہ اہم ہے کہ 'مشترکہ کوششیں ہوں، معلومات اور مہارت کا تبادلہ ہو‘ تاکہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکا جا سکے۔
تاہم کینیا کے علی بلا واکو اور اس کے خاندان کے لیے اب کسی بھی مدد کا وقت گزر چکا ہے۔ وہ اور ان کا خاندان اب ٹڈّیوں کے خلاف جنگ میں صرف یہ کر سکا کہ جیسے ہی ان کی یلغار ہوئی تو ان کو بھگانے کے لیے وہ کنستر بجاتے رہے۔
پھر بھی علی واکو اب فلسفیانہ انداز میں اپنے نقصان کی بات کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 'یہ خدا کی مرضی ہے۔ یہ ٹڈیاں بھی اسی کی مخلوق ہیں۔‘
کریڈٹس:
ورڈز اینڈ پروڈکشن: لوسی راجر۔ فیلڈ پروڈکشن: جو اِن وُوڈ۔ ڈیزائین: زؤئی بارتھلامیو اور مِیلی وچیرا۔ ڈویلپیمنٹ: بیکی رش، کیٹریونا موریسن اور پیوریٹی بریر۔