ٹڈی دل: دنیا بھر میں فصلوں کو ہڑپ کر جانے والے کیڑوں پر ایک نظر
بے آواز ویڈیو: ٹڈی دل
صحرائی ٹڈیوں کے بڑے جھنڈ مشرقی افریقہ، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی علاقوں میں تباہی مچا رہے ہیں جس سے فصلوں، لوگوں کے معاش اور خوراک کی ترسیل کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ یہ پہلے ہی کئی دہائیوں کے دوران خراب ترین صورتحال ہے اور اگر ان ٹڈیوں کو روکا نہیں گیا تو آنے والے بارشوں کے موسم میں ان کی یلغار میں 20 گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
ٹڈیاں کیا ہوتی ہیں اور اس وقت ان کی تعداد اتنی زیادہ کیوں ہے؟
انٹرایکٹو ایک تنہا صحرائی ٹڈی
بنیادی مواد کے بارے میں اہم بات
مکمل تجربہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو شاید اپنے براؤزر پر جاوا سکرپٹ کو اجازت دینی پڑے یا پھر کوئی مختلف براؤزر استعمال کرنا پڑے۔ اے آر تجربہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو اسے کسی ہم آہنگ موبائل ڈیوائس پر دیکھنا ہوگا۔
اے آر استعمال کرنے کے بارے میں اہم باتیں
یہ کرنے کے لیے آپ کو اپنے براؤزر کو آپ کے کیمرے اور کیمرا رول تک رسائی دینے کی اجازت فراہم کرنی پڑ سکتی ہے۔ تاہم بی بی سی کو آپ کے کیمرا تک رسائی نہیں ہوگی۔ بہتر تجربے کے لیے اپنی ڈیوائس کا جدید ترین آپریٹنگ سسٹم استعمال کریں۔
اے آر تجربہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو یہ موبائل ڈیوائس پر دیکھنا ہوگا۔

اس جیسی صحرائی ٹڈیاں مغربی افریقہ اور انڈیا کے درمیان تقریباً 30 ممالک کے خشک علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ پورا خطہ لگ بھگ 16 ملین مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔
ٹڈیوں کی یہ نسل عام طور پر تنہائی کی زندگی گزارتی ہے۔
اور یہ برسوں تک ایسی غیر اہم سی زندگی گزار سکتی ہیں۔
لیکن اکثر یہ صحرائی ٹڈیاں ایک مختلف روپ میں سامنے آتی ہیں۔
جب یہ اکٹھی ہو کر جھنڈ کی شکل میں ایسے علاقوں پر حملہ آور ہوتی ہیں جہاں بارش کے بعد خشک سالی ختم ہو رہی ہوتی ہے۔ کسی کونے میں پڑی ہوئی یہ بےضرر سی مخلوق اچانک چھوٹے چھوٹے درندوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

انٹرایکٹو تنہا ٹڈیوں میں کیسے تبدیلیاں آتی ہیں

جب یہ صحرائی ٹڈیاں جھنڈ کی شکل اختیار کرتی ہیں تو ان کے دماغ سے سیروٹونن نامی ایک کیمیکل ان کے جسم میں داخل ہوتا ہے جس سے ان کی شکل اور رویے میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
ان کیڑوں کے نہ صرف رنگ تبدیل ہو کر زیادہ چمکدار ہو جاتے ہیں بلکہ یہ چست اور زیادہ بھوکی ہو جاتی ہیں۔ ان کا آپس میں میل جول بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔
ایک مرتبہ میل ملاپ والے موڈ میں آنے کے بعد یہ ٹڈیاں اپنے ہمسفر ڈھونڈتی ہیں اور بہت تیزی سے نسل بڑھاتی ہیں۔ جلد ہی ان کی تعداد بڑھ کر تباہی پھیلانے والے گروہوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

انٹرایکٹو ٹڈیاں جھنڈ کی شکل اختیار کر کے فصلیں تباہ کر دیتی ہیں

ایک مرتبہ جب یہ ٹڈیاں اکٹھا ہونا شروع کر دیتی ہیں تو ان کے جھنڈ بڑے ہوتے چلے جاتے ہیں، ان کی انفرادی تعداد 10 ارب تک پہنچ جاتی ہے اور یہ سینکڑوں کلومیٹر تک پھیل جاتی ہیں
اقوامِ متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے کے مطابق ان ٹڈیوں کا اوسط درجے کا جھنڈ ایک ایسی فصل کو ہڑپ کر سکتا ہے جو ایک سال تک ڈھائی ہزار لوگوں کو خوراک مہیا کر سکتی ہے۔
ایسے انتہائی بھوکے جھنڈ کے جھنڈ مشرقی افریقہ، یمن، ایران، پاکستان اور انڈیا میں تیزی سے تیار ہو رہے ہیں اور اقوامِ متحدہ نے خبردار کرتے ہوئے ان علاقوں کو چوکس رہنے پر زور دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق کینیا، ایتھیوپیا اور صومالیہ کو اس خطرے کا مسلسل سامنا ہے۔ یہ ممالک پہلے ہی کئی دہائیوں میں سب سے بڑے ٹڈی دل سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس آفت کے مغربی افریقہ تک پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔
لیکن مسلسل بڑھتے اور سفر کرتے ٹڈیوں کے یہ جھنڈ مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان کے بعض علاقوں میں فصلوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انڈیا میں بھی فصلوں کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اضافی اقدامات نہ کیے گئے تو جلد آنے والے بارشوں کے موسم میں جنوبی ایشیا میں ٹڈیوں کی تعداد میں 20 گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
ٹڈی دل سے متاثر کئی ممالک پہلے ہی سیلابوں، جنگوں اور اب کورونا وائرس جیسے بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
شمالی کینیا کے ایک چرواہے اور ٹڈی دل پر نظر رکھنے والے ایلبرٹ لیماسولانی کہتے ہیں 'کووڈ 19 کے ساتھ یہ ہمارے لوگوں کے لیے دوہری مصیبت ہے۔ یہ جہاں بھی جاتی ہیں ہر چیز کا صفایا کر دیتی ہیں۔ یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔‘
ٹڈی دل کی حالیہ یلغار کی وجہ سنہ 2018 اور 2019 میں آنے والے سمندری طوفان اور بارشیں ہیں۔
اقوامِِ متحدہ کے مطابق جزیرہ نما جنوبی عرب میں دو سال قبل موافق حالات کی وجہ سے ٹڈیوں کی تین نسلیں خاموشی سے پروان چڑھتی رہیں۔ بعد میں یہ جھنڈ کی شکل میں حملہ آور ہوئیں۔

کئی ممالک میں انھیں قابو میں کرنے کی کوششوں کے باوجود حالیہ شدید بارشوں کی وجہ سے ٹڈیوں کو افزائشِ نسل کے لیے مناسب حالات ملے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف خطے میں کاشتکار نئی فصل لگا رہے ہیں تو دوسری طرف ٹڈیوں کے انڈوں میں مزید ایک نسل تیار ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے خوراک کی سکیورٹی کی پہلے سے خراب صورتحال مزید تباہ کن ہو جائے گی، خاص طور پر مشرقی افریقہ میں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک ٹڈیوں کو قابو میں کرنے کے اقدامات کے لیے رقوم اکٹھی کر رہا ہے لیکن کچھ علاقوں میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔
شمالی کینیا میں ہر طرف کاشتکار پہلے ہی ٹڈی دل سے یہ جنگ ہار چکے ہیں جو ان کا سب کچھ چٹ کر چکی ہیں۔
لیماسولانی، جو اقوامِ متحدہ اور کینیا کی حکومت کی مشترکہ ٹیم میں کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ روزآنہ پانچ سے دس جھنڈ آتے ہیں۔ 'اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمارا سب کچھ ختم ہو جائے گا، ہماری زندگیاں تباہ ہو جائیں گی۔‘
کریڈٹس
ٹڈیوں کی اینیمیشن: جیسمین بونشور، ڈیزائن: جیری فلیچر، ڈیویلپمنٹ: کیٹریونا موریسن، سٹیون کونر اور ایڈم ایلن، تحریر: لوسی روجرز، فیلڈ رپورٹنگ: جو اِن وُڈ