اس سال تھائی لینڈ میں بڑی تعداد میں جمہوریت پسند مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور اس میں 22 سالہ پانوسایا جیسی کئی طلبہ کا مرکزی کردار تھا۔ انھیں اور کئی اور سماجی کارکنان کو ان مظاہروں میں شرکت کرنے پر حراست میں لے لیا گیا لیکن بعد میں ان سب کی ضمانت پر رہائی بھی ہو گئی۔
پانوسایا کے حراست کی ویڈیو لائیو سٹریم ہوئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ سادہ لباس میں ملبوس چار پولیس اہلکاروں نے انھیں زبردستی ایک ہوٹل سے نکل کر وہیل چئیر میں ڈالا اور پولیس کے ٹرک میں لے گئے۔ پانوسایا نے خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔
اگست کے مہینے میں انھوں نے ایک سٹوڈنٹ مارچ میں دس نکاتی منشور پڑھا جس میں انھوں نے ملک کے بادشاہ سے ملکی سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے اس قدم پر پورے ملک میں حیرانی کا باعث تھا کیونکہ تھائی لینڈ میں بادشاہت کے خلاف بولنا بہت سخت جرم سمجھا جاتا ہے اور بادشاہ، ملکہ یا ولی عہد کے خلاف بات کرنے پر 15 سال کی جیل ہو سکتی ہے۔ پانوسایا نے کہا: ’میں ایک عام سی طالبہ ہوں جو یہ چاہتی ہے کہ اس معاشرے میں سب کو یکساں حقوق اور عزت ملے۔‘
> ہر کوئی دنیا بدل سکتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں اور آپ کیا کرتے ہیں، پر اعتماد رہیے اور اپنی زندگی کو اس قابل بنایے۔