بی بی سی کی 2020 کی 100 خواتین

  • گمنام ہیرو

    بین الاقوامی تبدیلی لانا

    اس غیر معمولی سال میں جہاں دنیا بھر میں لاتعداد خواتین نے دوسروں کے لیے قربانیاں دی ہیں، اس فہرست میں پہلا نمبر ایسی عورتوں کے اعزاز میں چھوڑا گیا ہے جنھوں نے تبدیلی کی کاوش میں اپنی جانیں بھی قربان کر دیں۔

    بی بی سی اپنی 100 خواتین کی فہرست میں ہر اس عورت کا نام شامل نہیں کر سکتا تاہم یہاں آپ یہ انتخاب کر سکتے ہیں اور ایسی تمام خواتین کو یاد کر سکتے ہیں جو آپ کی نظر میں اس اعزاز کی حقدار ہیں۔

  • ماہرہ خان

    پاکستان اداکارہ mahirahkhan

    پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کوئی معمولی سٹار نہیں بلکہ وہ جنسی تشدد کے خلاف کھل کر بات کرتی ہیں، انھوں نے رنگ گورا کرنے والی کریموں کی تشہیر سے انکار کیا اور وہ نسلی بنیادوں پر امتیاز کے خلاف جدوجہد کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ اپنے ڈراموں اور فلموں کے ذریعے معاشرتی مسائل سے نمٹنا چاہتی ہیں۔

    ماہرہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین میں خیر سگالی کی سفیر بھی ہیں جو پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی حالت زار سے متلعق آگاہی پھیلاتا ہے۔ سنہ 2006 میں اپنا شوبز کرئیر شروع کرنے والی ماہرہ خان ناظرین کی پسندیدہ رہی ہیں۔ اس سب کے علاوہ ماہرہ ایک 11 سالہ بیٹے کی والدہ بھی ہیں۔

    > ان اسباب اور مسائل کے متعلق آواز اٹھائیں جو تبدیلی کی حوصلہ افضائی کرتے ہیں۔

  • ثانیہ نشتر

    پاکستان گلوبل ہیلتھ لیڈر

    ڈاکٹر ثانیہ نشتر عالمی صحت کے حوالے سے ایک اہم رہنما ہیں۔ 2018 سے وہ پاکستان میں غربت کا خاتمہ کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے احساس پروگرام کی سربراہی کر رہی ہیں جس نے پاکستان میں لاکھوں افراد کی زندگیاں بہتر بنائی ہیں اور انھیں بینک اکاؤنٹس مہیا کیے جہاں وہ اپنی رقم محفوظ کر سکیں۔

    بطور معاون خصوصی برائے انسداد غربت، ثانیہ نشتر نے وہ اقدامات اٹھائے ہیں جس کی مدد سے پاکستان ایک فلاحی ریاست بن سکے۔

    > کووڈ 19 کے شدید اثرات نے ہمیں ایک ایسا نادر فراہم دیا ہے کہ ہم ایک انصاف پسند دنیا قائم کرنے کے ساتھ ساتھ غربت، عدم مساوات اور ماحولیاتی تبدیلی جیسےمسائل کا خاتمہ کر سکیں۔ لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے عورتوں کو برابری کا درجہ ملنا ضروری ہے۔

  • لالہہ عثمانی

    افغانستان سماجی کارکن

    افغانستان میں عورت کا عوامی طور پر نام استعمال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے پیدائش کے سرٹیفیکٹ پر صرف اس کے والد کا نام استعمال کرنے کا اجازت ہے۔ جب کسی عورت کی شادی ہوتی ہے تو دعوت نامے پر اس کا نام نہیں آتا۔ جب وہ بیمار ہوتی ہے تو دواؤں کے نسخے پر بھی اس کا نام نہیں ہوتا۔ جب اس کی موت ہوتی ہے تو اس کا نام نہ موت کے سرٹیفیکٹ پر ہوتا ہے نہ قبر کے کتبے پر۔

    خواتین کو بنیادی حقوق نہ ملنے پر لالہہ تنگ آ گئیں اور اس پر انھوں نے ایک مہم چلائی جس کا نام تھا وہئیر از مائی نیم یعنی میرا نام کہاں ہے۔ تین سال کی جدوجہد کے بعد 2020 میں افغان حکومت نے اس بات پر حامی بھر لی ہے کہ قومی شناخت کارڈ پر خواتین کا نام ہوگا اور ان کے بچوں کی پیدائش کے سرٹیفیکٹ پر بھی۔

    > ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ تبدیلی لانا ایک دشوار عمل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں۔ آپ اسے ہر اس عورت میں دیکھ سکتے ہیں جس نے اپنی شناخت کے لیے افغانستان جیسے قدامت پسند ملک میں جنگ لڑی ہے۔

  • نسرین سوتودیح

    ایران انسانی حقوق کی کارکن

    نسرین سوتودیح ایک ایرانی وکیل ہیں جو قانون کی بالادستی، قیدیوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے حقوق کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کے حقوق کی متحرک کارکن ہیں۔ وہ ملک کے نظام عدل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر ملنے والی طویل قید کی سزا سے آج کل عارضی چھٹی پر ہیں۔

    قید اور اپنے اہلخانہ کو ملنے والی دھمکیوں کے باوجود نسرین قانون کی حکمرانی کی منحرف وکیل ہیں۔

    > ایران میں حجاب پہننا لازم ہے اور اگر وہ ہم پر اس کپڑے کا آدھا میٹر واجب قرار دے سکتے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

  • بلقیس

    انڈیا احتجاجی رہنما

    82 سال کی عمر میں بلقیس خواتین کے اس گروہ کا حصہ ہیں جنھوں نے پر امن طریقے سے شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

    وہ دارالحکومت کے مسلم علاقے شاہین باغ میں، جہاں احتجاجی مظاہرے ہوا کرتے تھے، سب سے لمبے احتجاج کا چہرہ بن کر سامنے آئیں۔ انڈیا کی صحافی رعنا ایوب انھیں پسماندہ لوگوں کی آواز کہتی ہیں۔

    > عورتوں کو چاہیئے کہ وہ با اختیار محسوس کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلیں اور اپنی آواز بلند کریں، خصوصاً ناانصافی کے خلاف۔ اگر وہ گھروں سے نہ نکلیں تو وہ کیسے اپنی طاقت دکھا سکیں گی۔

  • رینا اختر

    بنگلہ دیش سابق سیکس ورکر

    عالمی وبا کے دوران، رینا اور ان کی مدد گاروں کی ٹیم نے ہر ہفتے 400 کے قریب کھانے جن میں چاول، سبزیاں، انڈے اور گوشت شامل تھا، ڈھاکہ میں ان سیکس ورکروں میں تقسیم کیے، جن کے پاس گاہک نہیں آ رہے تھے اور انھیں خوراک حاصل کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔

    > لوگ ہمارے پیشے کو حقیر سمجھتے ہیں، لیکن ہم ایسا خوراک خریدنے کے لیے کرتے ہیں۔ میں یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ اس پیشے میں کام کرنے والی عورتیں بھوکی نہ رہیں، اور ان کے بچوں کو یہ نہ کرنا پڑے۔

  • سارہ الامیری

    متحدہ عرب امارات جدید ٹیکنالوجیز کی وزیر

    ہر ایکسیلینسی سارہ الامیری متحدہ عرب امارات کی جدید ٹیکنالوجیز کی وزیر اور متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی کی چیئر پرسن ہیں۔ اس سے قبل وہ امارات کے مارز مشن کی سائنس کی رہنما اور نائب پراجیکٹ مینیجر تھیں۔

    امارات کی جانب سے مریخ پہنچنے کی کوشش کسی بھی عرب ملک کی جانب سے خلا کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ خلائی جہاز کا عربی میں نام امل ہے (یعنی امید) اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ فروری 2021 میں مریخ کی سطح پر اتر کر سیارے کے ماحول اور موسم کے حوالے سے نمونے اکٹھے کرنے کا کام شروع کر دے گا۔

    > وائرس کی وجہ سے دنیا مکمل خاموشی میں چلی گئی ہے، جس میں ہم بطور فرد تدبر کرتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ ہمیں بڑھتے رہنے کی مشترکہ کوششیں جاری رکھنے کی اور اپنی نازک دنیا کا استحکام یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

  • مناسی جوشی

    انڈیا ایتھلیٹ

    ایک ٹانگ سے محروم انڈین ایتھلیٹ مناسی پیرا بیڈ منٹن کی عالمی چیمپیئن ہیں۔ جون سنہ 2020 میں بیڈ منٹن ورلڈ فیڈریشن نے انھیں ایس ایل تھری سنگلز میں عالمی نمبر دو کا درجہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ مناسی انجینئیر اور چینج میکر ہیں۔

    انڈیا میں معذوری اور پیرا سپورٹس کو کیسے دیکھا جاتا ہے، وہ اسے تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی تصویر حال ہی میں ٹائمز میگزیں کے ایشیا ایڈیشن میں سرورق پر شائع کی گئی ہے اور انھیں آئندہ نسل کی لیڈر کا خطاب دیا گیا ہے۔

    > یہ سال خواتین کے لیے بہت طریقوں سے چیلنجز سے بھرپور رہا ہے۔ مشکل وقت کو خود پر سوار نہ ہونے دیں، ہر امکان کا جائزہ لیں۔ ہر دن اپنے لیے تھوڑا سا وقت نکالیں۔

  • رما سلطانہ رما

    بنگلہ دیش ٹیچر

    رما سلطانہ بنگلہ دیش کے شہر کاکس بازار میں ’ینگ وویمن لیڈر فار پیس‘ کی ایک رکن ہیں۔ یہ پروگرام گلوبل نیٹ ورک آف وویمن پیس بلڈرز کا حصہ ہے، جس کا مقصد تنازعے سے متاثرہ ممالک میں خواتین کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔

    اپنی کمیونٹی میں روہنگیا پنا گزینوں کے معاملے پر رما نے صنفی بنیادوں پر انسانی امداد کی وکالت کی۔ انھوں نے روہنگیا پناہ گزینوں اور خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیمی کلاسز کا اہتمام کیا۔ رما نے ریڈیو نشریات اور تھیٹر پرفارمنس کے ذریعے اپنی کمیونٹی میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں 1325 اور 2250 کے بارے میں آگاہی بھی پھیلائی۔

    > میں بنگلہ دیش میں صنفی برابری لانے کے لیے پرعزم ہوں۔ میں ہمارے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے خواتین اور لڑکیوں کی طاقت پر یقین رکھتی ہوں۔ ہم کامیاب ہوں گے۔

  • سومایا فاروقی

    افغانستان روبوٹکس کی ٹیم لیڈر

    جب سومایا کے صوبے ہرات میں کووڈ۔19 کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تو وہ اور ان کی تمام روبوٹکس کی ٹیم ’دی افغان ڈریمرز‘ کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے کم خرچ وینٹیلیٹر بنانے میں مصروف ہو گئی۔

    سومایا اور ان کی ٹیم اپنا ڈیزائن پبلک ہیلتھ کی وزارت کو پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اگر نمونہ منظور ہو گیا تو اسے دور دراز کے ہسپتالوں میں استعمال کیا جائے گا۔ سنہ 2002 میں پیدا ہونے والی سومایا کئی ایوارڈز جیت چکی ہیں، جن امریکہ میں ہونے والے فرسٹ گلوبل چیلنج میں ’کریجیئس ایچیومنٹ‘ کا سلور میڈل، ورلڈ سمٹ اے آئی میں بینیفٹنگ ہیومینیٹی ان اے آئی ایوارڈ، را سائنس فلم فیسٹیول میں جینیٹ آئوی۔ڈئیونسنگ کا پرمیشن ٹو ڈریم ایوارڈ اور ایسٹونیا میں ہونے والے یورپ کے سب سے بڑے روبوٹکس فیسٹیول میں اینٹریپرینیور چیلنج بھی شامل ہے۔

    > ہمارے مستقبل کے لیے اہم یہ ہے کہ ہم آج اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہر بچے کے پاس تعلیم تک مساوی رسائی، اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے آلات موجود ہوں۔

  • صفا کماری

    شام پودوں کی وائرولوجسٹ

    پودوں کی وائرولوجسٹ ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر صفا کماری ایسی بیماریوں کی کھوج لگاتی ہیں جو فصلوں کو تباہ برباد کر سکتی ہیں۔ جب انھوں نے ایسے بیج دریافت کیے جو شام میں غذا کی قلت کو پورا کر سکتے تھے، انھوں نے ان بیج کو بچانے کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر حلب کا سفر کیا۔

    انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ایسے پودے دریافت کرنے میں لگا دیا ہے جو خود وائرس سے بچاؤ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ان میں فابا بین بھی شامل ہے جو ’فابا نیکروٹک ییلو وائرس سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔

    > سال 2020 میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے میں جس ٹیم کا حصہ ہوں اس میں ہم قابلیت اور صلاحیت جانچتے ہیں، کسی کی صنف نہیں۔ خواتین کو اپنی قابلیت پر بھروسہ کرنا چاہیے کہ ان کا کام کسی بھی مرد سے کم نہیں ہے۔

  • ایمان غالب الھاملی

    یمن مائیکروگرڈ مینیجر

    ایمان 10 خواتین کے ایک گروہ کی منتظم ہیں جس نے سولر مائیکروگرڈ قائم کیا ہے۔ یہ یمن کی تباہ کن خانہ جنگی کی فرنٹ لائن سے صرف 20 کی دوری پر صاف اور کم اثر والی توانائی مہیا کرتا ہے۔

    یمن کے ان علاقوں میں جہاں بجلی کے تاروں کا سلسلہ نہیں جاتا وہاں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی طرف سے بنائے گئے تین پراجیکٹس میں سے ایک مائیکروگرڈ ہے، اور یہ واحد ہے جسے صرف عورتیں چلاتی ہیں۔ شروع میں ایمان کی ٹیم کا مردوں والا کام کرنے کے لیے مذاق اڑایا گیا۔ لیکن اس کے بعد کمیونٹی نے ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا۔ وہ اپنے لیے پائدار آمدنی حاصل کر رہی ہیں اور نئے اور پروفیشنل ہنر بھی سیکھ رہی ہیں۔

    > میرا یمن کی تمام لڑکیوں کو پیغام ہے کہ اپنے خواب پورے کریں۔ وہ پورے اعتماد سے جدوجہد کریں، اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے راستے میں زندگی میں پیش آنے والی سبھی مشکلات کو چیلنج کریں۔

  • حیات مرشاد

    لبنان سماجی کارکن

    حیات مرشاد ایک فیمینسٹ ہیں جو لبنان میں بطور صحافی کام کرتی ہیں۔ انھوں نے خواتین کے لیے فی میل نام سے تنظیم بنائی ہے اور ان کا مقصد ہے کہ اس کی مدد سے خواتین کو انصاف، معلومات اور تحفظ ملے اور ان کے انسانی حقوق پورے ہوں۔

    وہ مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے پیغام کو پھیلاتی ہیں اور اس کے علاوہ ملک بھر میں مارچ کا انعقاد کرتی ہیں تاکہ کرپٹ حکمرانوں اور پدر شاہی نظام کا خاتمہ ہو۔

    > مشکلات اور دشواریوں کے باوجود تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے پدر شاہی کا مقابلہ کیا ہے۔ اتحاد اور ایکا اور ایک دوسرے کے ساتھ پیار کرنے سے ہم یہ جنگ جاری رکھ سکیں گے، اپنا آواز بنلد کر سکیں گے اور ایک انصاف پسند مستقبل کا مطالبہ اور امید کر سکیں گے۔

  • ایسایوانی

    انڈیا موسیقار isaivaniisaiv

    ایسایوانی یہ کہہ سکتی ہیں کہ وہ انڈیا میں ’گانا‘ تال گانے والی واحد مقبول خاتون گلوکارہ ہیں۔ وہ تمل ناڈو ریاست کے شہر چنئی سے تعلق رکھتی ہیں اور کئی سالوں سے اس تال کو گا رہی ہیں جس میں عمومی طور پر مردوں کی اجارہ داری ہوتی ہے۔

    مردوں کے ساتھ ایک ہی سٹیج پر گانا بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے لیکن ایسایوانی نے اپنی قابلیت کے جھنڈے اتنے گاڑ لیے ہیں کہ اس کی مدد سے ’گانا‘ گانے والی دوسری گلوکاراؤں کو بھی موقع اور ہمت ملی ہے کہ وہ آگے آئیں۔

    > سنہ 2020 میں دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہیں لیکن عورتوں کے لیے یہ دنیا ہر روز بدل رہی ہے: خواتین نے بحث و مباحثے اور جگہوں کو چیلنج کیا ہے۔ یہ عمل آنے والے نسلوں کے لیے مستقل جاری رہے گا۔

  • ہوئدا اباؤز

    مراکش ریپر khtek.17

    ہوئدا اباؤز عرف خاٹیک ایک مراکش کی ریپر ہیں جو اپنے منفرد سٹائل اور غنائی گیتوں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔

    وہ عورتوں کے حقوق اور صنفی برابری پر یقین رکھتی ہیں۔ مردوں کے غلبے والی اس صنعت میں بطور ایک کے ریپر، ہوئدا اپنی موسیقی کو تبدیلی کا ایک آلہ سمجھتی ہیں۔

    > لڑائی جاری رکھیں، تخلیق کرتی رہیں، مزاحمت جاری رکھیں: کبھی پیچھے نہ ہٹیں۔ ہماری لڑائی ابھی شروع ہوئی ہے، اور وہ سب کچھ ہیں جس کی اس دنیا کو ضرورت ہے: عورتوں کی قوت۔

  • فیبفی سیتیاواتی

    انڈونیشیا سماجی کارکن Febfisetyawati

    فیبفی سیتیاواتی ایک ایسی تنظیم کی رہنما ہیں جو ایسے لوگوں اور خاص کر مریضوں کی مدد کرتی ہے جنھیں معاشی مسائل ہوں یا جو کوویڈ 19 کا شکار ہوں۔ وہ اور ان کی ٹیم ایک وین میں کمیونٹی کا دورہ کرتے ہیں اور طالب علموں کو مفت انٹرنیٹ اور موبائل لائبریری تک رسائی دیتے ہیں تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ اب یہ ٹیم ایسے علاقوں میں سگنل ٹرانسمیٹر فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں انٹرنیٹ کے سگنل نہیں آتے۔

    ایک غیر معمولی اعصابی حالت موئیبس سینڈروم سے اپنے بیٹے اکارا ہیکل کی موت کے بعد فیبفی نے دوسروں کی مدد کا فیصلہ کیا۔

    > سنہ 2020 میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ ہمیں بھی اس دنیا کے لیے بدلنا ہو گا۔ شکایت کرنے سے بہتر ہے کہ ہم ایسا کچھ ضرور کریں جو مفید ہو۔

  • سپانا روکا مگار

    نیپال

    تین ماہ تک بے گھر رہنے کے بعد سپانا نے کھٹمنڈو کا سفر کیا اور ایک ایسی تنظیم میں شامل ہو گئیں جو لاوارث لاشوں کا آخری رسومات ادا کرتی ہے۔

    ایسے لوگ جن کی موت کوویڈ 19 کی وجہ سے ہوئی ان کی لاشوں کا انتظام سختی سے نیپال کی فوج کے پاس تھا۔ سپنا کی تنظیم لاوارث لاشوں کو گلیوں یا مردہ خانوں سے حاصل کر کے ان کے پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتل لے جاتی۔ اگر 35 دن تک کوئی ان لاشوں کی تصدیق کے لیے نہ آتا تو سپنا کی تنظیم ان کی آخری رسومات ادا کر دیتی۔

    > دنیا بھر میں بے گھر اور ٹھکرائے ہوئے لوگ موجود ہیں۔ وہ لوگ جو گلیوں میں مرتے ہیں وہ مناسب آخری رسومات کے حقدار ہیں۔ میں یہ کام سماجی خدمت کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذہنی سکون کے لیے کرتی ہوں۔

  • عائشہ یسوفو

    نائجیریا سماجی کارکن

    عائشہ یسوفو ایک سماجی کارکن ہیں جو اپنے ملک میں اچھی حکمرانی کا مطالبہ کرتی ہیں۔

    وہ ’برنگ بیگ اوور گرلز‘ کی مہم کی شریک کنوینر ہیں، جو 2014 میں نائجیریا کے شہر چبوک میں دہشت گرد گروہ بوکو حرام کے ہاتھوں سکینڈری سکول کی 200 سے زیادہ طالبات کے اغوا کے بعد شروع کی گئی تھی۔ جون 2020 میں بلیک لائیو میٹرز کی تحریک نے سپیشل اینٹی روبری سکواڈ (سارس) پر نائجیریائی شہروں کے قتل، ریپ، اور ڈکیتی کا الزام لگنے کے بعد نائجیریا کی حمایت کی۔ یسوفو اینڈ سارس کی رہنما ہیں، جس کا مقصد نائجیریا پولیس فورس کے متنازعہ یونٹ کی زیادتیوں کو منظر عام پر لانا ہے۔

    > میرا عورتوں کو مشورہ ہے کہ وہ پوری طرح اور بغیر کسی معذرت کےدنیا میں اپنی جگہ لے لیں۔ عورتوں کو میز پر اپنی جگہ کے متعلق پوچھنا بند کر دینا چاہیئے، ان کو اپنا میز خود بنانا چاہیئے۔

  • نادین اشرف

    مصر کیمپینر actuallynadeen

    نادین فلسفے کی طالبہ ہیں جو سمجھتی ہیں کہ سوشل میڈیا تبدیلی لانے والا ایک آلہ ہے۔ وہ اس جذبے سے علم پھیلانا چاہتی ہیں کہ یہ عام لوگوں کی پہنچ میں ہو۔

    نادین اسالٹ پولیس کی بانی ہیں، یہ ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ ہے جہاں مصر کی خواتین ان کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراس کے واقعات شیئر کر سکتی ہیں۔ خواتین کی تحریک میں اب نادین کو جنسی ہراس کے خلاف جنگ میں سماجی تبدیلی لانے والی ایک اہم شخصیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

    > میں ان خواتین میں پلی بڑھی ہوں جنھوں نے تبدیلی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں: میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی اس قابل ہوں گی کہ ان کی آواز کو دوسروں تک پہنچا سکوں۔ آپ کو اگر کسی چیز پر یقین تو اسے جب وقت ملے کر دیں۔

  • نصرین علون

    پبلک ہیلتھ کی ماہر

    نصرین برطانیہ میں ایک پبلک ہیلتھ ڈاکٹر اور معلمہ ہیں، جو صحت اور خواتین اور بچوں کی بہبود پر تحقیق کرتی ہیں۔

    کووڈ۔19 کی عالمی وبا کے دوران انھوں نے اس بات کی آگاہی کی ضرورت پر زور دیا کہ ممالک کو صرف ہلاکتوں کے اندازہ لگانے اور انھیں ختم کرنے اقدامات نہیں کرنے چاہئیں بلکہ وائرس، (بشمول کووڈ۔19) کے صحت پر کثیر المدتی اثرات کا بھی جائزہ لینا چاہیئے۔

    > 2020 کے دوران میں نے تین چیزیں زیادہ کیں: جو جی میں آیا وہ کہا، جس سے ڈر لگتا تھا وہ کیا اور اپنے آپ کو معاف کیا۔ میں نے تین چیزیں کم بھی کیں: دوسرے میرے متعلق کیا سوچتے ہیں اس پر توجہ دینا، اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہرانا اور یہ سمجھنا کہ میں دوسروں سے کم تر ہوں۔

  • اباہ علی

    صومالی لینڈ ایف جی ایم ایجوکیٹر

    اباہ علی ’سولیس فار صومالی لینڈ گرلز‘ کی شریک بانی ہیں، یہ فاؤنڈیشن خواتین کو تعلیم کے ذریعے اور انھیں با اختیار بنا کر صومالی لینڈ کی برادریوں میں خواتین کے ختنوں (ایف جی ایم) کی ہر طرح کی شکل کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔

    علی لبنان میں تارکینِ وطن کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ وہ امیریکن یونیورسٹی آف بیروت کا طالبہ ہیں۔

    > دنیا 2020 میں بہت بدل گئی ہے۔ دنیا بھر کی خواتین میں اتحاد کی بہت سخت ضرورت ہے ۔ بہت سی گھریلو تشدد، ریپ، ایف جی ایم اور کئی دیگر کا شکار ہیں۔ متحد ہو کر خواتین انصاف کا مطالبہ کر سکتی ہیں!

  • کرن گاندھی

    امریکہ گلوکارہ

    کرن گاندھی، جو میڈم گاندھی کے نام سے جانی جاتی ہیں، ایک گلوکارہ، فنکارہ اور کارکن ہیں جن کا مشن صنفی آزادی کو بلند مقام پر پہنچانا اور منانا ہے۔ انھوں نے ایم آئی اے اور تھیوری کارپوریشن جیسے فنکاروں کے ساتھ لائیو پرفامنس بھی دی ہیں۔

    اس سے پہلے انھوں نے حیض کے متعلق منفی سوچ کو بدلنے کے لیے لندن میراتھن میں اس وقت حصہ لیا جب ان کا خون نکل رہا تھا۔

    > کیونکہ ہم میں سے کتنے لوگوں کو اپنے کاروبار کو گھروں سے کرنے کے لیے اسے ری ڈیزائن کرنا پڑا، جو اصل میں پیرنٹنگ کے متعلق ایک صحت مند رجحان کی اجازت دے رہا ہے۔ ہماری پاس نظام کو ری ڈیزائن کرنے اور اسے اپنے لیے کام کرنے والا بنانے کی طاقت ہے۔

  • گلسم کیو

    ترکی سماجی انصاف کی کارکن

    گلسم کیو ایک ترک ڈاکٹر اور ’وی ول سٹاپ فیمی سائیڈ‘ نامی ایک ادارے کی شریک بانی ہیں۔ گذشتہ ایک برس کے دوران بڑی تعداد میں خواتین کے قتل اور استنبول کنونشن کو منسوخ کرنے کے لیے جاری پارلیمانی بحث کو ترکی میں خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    گلسم ترکی میں صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے انتھک جدوجہد کر رہی ہیں اور قتل ہونے والی خواتین کے رشتہ داروں کی مدد کرتی ہیں۔

    > آج جو خواتین مزاحمت کر رہی ہیں وہ برابری اور آزادی چاہتی ہیں۔ اس وبا نے عورت کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر روشنی ڈالی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس تبدیلی کے لیے خواتین کوشش کر رہی ہیں، اس کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

  • لوزا ابیرا جینیور

    ایتھیوپیا فٹبالر

    لوزا ابیرا جینیورجنوبی ایتھوپیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ وہ ہواسا سٹی ایس سی کی وومنز پریمیئر لیگ کے لیے دو سیزن کھیلی ہیں، اس دوران وہ کلب کی ٹاپ گول سکورر رہیں۔

    اب وہ ایک پروفیشنل فٹبالر ہیں، اور ایتھوپیا کی خواتین کی قومی ٹیم کی رکن ہیں۔

    > دنیا میں کوئی بھی عورت ہر وہ چیز حاصل کر ستکی ہے جس کا اس نے خواب دیکھا ہو یا اس کے بارے میں سوچا ہو، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔

  • کرسٹینا آدین

    نیدرلینڈز مہم چلانے والی christina.adane

    برطانیہ میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران بچوں کے سکول کے فری کھانوں کی پیٹیشن کے پیچھے کرسٹینا کا ہاتھ تھا۔ اس مہم کو فٹبالر مارکس ریشفورڈ کی حمایت حاصل ہے۔

    بطور ’بائیٹ بیک 2030‘ کی یوتھ بورڈ کی شریک چیئر کے کرسٹینا چاہتی ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ برطانیہ میں کوئی بھی بچہ بھوکا نہ رہے۔ یہ مہم فوڈ انڈسٹری میں ناانصافی کے خلاف ہے اور کرسٹینا بھی دورانِ تعلیم سکول میں فری کھانا لیتی رہی ہیں۔

    > کبھی اپنے آپ یا اپنے عقائد پرسمجھوتہ نہ کریں۔ کوئی بھی خاتون ہجوم میں شامل ہو کر تبدیلی نہیں لا سکی۔

  • یووان آکی۔سائیر

    سیارا لیون میئر

    میئر یووان آکی۔سائیر او بی ای اپنے تین سالہ ٹرانسفارم فری ٹاؤن منصوبے کی وجہ سے بہت مشہور ہیں، جس کا ہدف 11 سیکٹرز ہیں جو ماحولیاتی تنزلی اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے سے لے کر نوجوانوں میں بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے نوکریاں پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سال جب موسمیاتی بحران پر کڑی نظر ہے، میئر آکی۔سائیر نے فری ٹاؤن کے رہائشیوں کو تحریک دی ہے کہ وہ ان کی دو سال کے وقفے میں دس لاکھ درخت لگانے کی مہم میں شامل ہو جائیں۔

    ’فری ٹاؤن دی ٹری ٹاؤن‘ کو جنوری 2020 میں بغیر کسی وسائل کے لانچ کیا گیا تھا، اکتوبر تک چار لاکھ پچاس ہزار پنیریاں لگائی جا چکی تھیں، اور باقی کو بارشوں کے اگلے موسم کے لیے رکھ لیا گیا تھا۔ سیلاب، مٹی کے کٹاؤ اور پانی کی کمی جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے درخت انتہائی اہم ہیں۔

    > ہم شاید مایوس اور غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ اسے ہمیشہ منفی میں ہی نہیں رہنا: ہم اپنی مایوسی کو اس تبدیلی میں بدل کر جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں اسے مثبت میں بدل سکتے ہیں۔

  • وعد الاخطیب

    شام فلم میکر

    وعد الاخطیب ایک شامی سرگرم کارکن، صحافی اور ایوارڈ یافتہ فلم میکر ہیں، جنھیں ان کی حلب پر نیوز رپورٹوں کی وجہ سے متعدد اعزازات (بشمول ایمی) سے نوازا گیا ہے۔ 2020 میں ان کی پہلی فیچر فلم سما کو بہترین ڈاکیومنٹری کا بافٹا ایوارڈ دیا گیا، اور اسے اکیڈمی ایوارڈ میں بہترین ڈاکیومنٹری فیچر کے طور پر نامزد بھی کیا گیا۔

    وعد الاخطیب ایک شامی سرگرم کارکن، صحافی اور ایوارڈ یافتہ فلم میکر ہیں، جنھیں ان کی حلب پر نیوز رپورٹوں کی وجہ سے متعدد اعزازات (بشمول ایمی) سے نوازا گیا ہے۔ 2020 میں ان کی پہلی فیچر فلم سما کو بہترین ڈاکیومنٹری کا بافٹا ایوارڈ دیا گیا، اور اسے اکیڈمی ایوارڈ میں بہترین ڈاکیومنٹری فیچر کے طور پر بھی نامزد کیا گیا۔

    > ہم اس وقت ہی ہارتے ہیں جب ہم امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ سبھی خواتین کے لیے، چاہے وہ کہیں بھی ہوں: جو بھی آپ سمجھتی ہیں وہ جنگ جاری رکھیں، خواب دیکھتی رہیں، اور سب سے اہم کہ کبھی بھی، کبھی بھی امید کا دامن نہ چھوڑیں۔

  • ایڈریانا البینی

    اٹلی پیتھالوجسٹ

    ایڈریانا البینی آئی آر سی سی ایس ملٹی میڈیکا اور ملٹی میڈیکا فاؤنڈیشن کی ویسکولر بائیولوجی اور اینجیوجینیسس کی سربراہ، یونیوسٹی آف میلان۔بائیکوکا کی جنرل پیتھالوجی کی پروفیسر اور امریکی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی سابق وزٹنگ سائنٹسٹ ہیں۔

    وہ پہلی اطالوی شہری ہیں جنھیں امیریکن ایسوسی ایشن فار کینسر ریسرچ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اٹلی کی نیشنل آبزرویٹری فاؤنڈیشن آن وومنز ہیلتھ میں وومن سائنسدانوں کے اعلیٰ کلب کی صدر کے طور پر انھوں نے خواتین تحقیق کاروں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ فینسنگ چیمپیئن بھی ہیں، اور انھوں نے 2018 کے ویٹرنز ورلڈ کپ میں برونز اور 2015 کے یورپییئن ویٹرنز فینسنگ مقابلوں میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔

    > تحقیق کار اپنے کیریئر کا آغاز ایک راستہ چن کر کرتے ہیں: سائنسدان اس جگہ راستہ بناتے ہیں جہاں پکی سڑک ختم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ خواتین سائنسدان، اپنی ملٹی ٹاسکنگ فطرت کی وجہ سے لازمی طور پر وہ راستے ڈھونڈیں جنھیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔

  • الیزبیتھ انیونو

    انگلینڈ، برطانیہ نرس

    پروفیسر ڈیم الیزبیتھ انیونو یونیورسٹی آف ویسٹ لندن میں امیریٹس پروفیسر آف نرسنگ ہیں، اس کے علاوہ وہ یو کے سکل سیل سوسائیٹی کی پیٹرن بھی ہیں۔

    الیزبیتھ وہ سکل سیل اور تھیلیسیمیا نرس ہیں جنھوں نے برٹش جمیئاکن نرس میری سیکول کے مجسمے کے لیے مہم چلائی۔ وہ کووڈ۔19 کے بیم کمیونٹی پر غیر متناسب اثرات پر روشنی ڈالنے والی اہم شخصیت بھی تھیں۔

    > اپنی اور دوسری کئی خواتین کی طرف سے کی جانے والی مثبت عالمی شراکت کو کبھی بھی کم تر نہ سمجھیں۔

  • ڈیانا باران

    برطانیہ پارلیمانی سیکریٹری خارجہ

    بیرونس باران کو 2019 میں برطانیہ کی سول سوسائٹی کی وزیر تعینات کیا گیا۔ وہ سیف لائیوز کی بانی اور سابق چیف ایگزیکیوٹیو ہیں، جو کہ گھریلوں تشدد کے خلاف کام کرنے والا ایک قومی خیراتی ادارہ ہے۔ وہ تھنک ٹینک ’نیو فیلان تھراپی کیپیٹل‘ کی بھی سابق گرانٹ ڈویلپمنٹ انچارج ہیں، انھوں نے ایسٹ مینجمنٹ میں بھی کام کیا ہے اور 1993 میں یورپ کا پہلا ہیج فنڈ بھی قائم کیا تھا۔

    بیرونس باران رائل فاؤنڈیشن اور کامک ریلیف کی ٹرسٹی اور ہینری سمتھ چیریٹی کی چیئر رہی ہیں۔ انھیں 2007 میں بیکن ایوارڈ فار انگلینڈ ملا اور گھریلو تشدد پر اپنے کام کے لیے 2011 ایم بی ای کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

    > میں مایا اینجلو کے الفاظ کے متعلق سوچ رہی ہوں: ’آپ نے جو کہا وہ لوگ بھول جائیں گے، آپ نے جو کیا وہ لوگ بھول جائئں گے، لیکن لوگ یہ کبھی نہیں بھولیں گے کہ آپ نے انھیں کیسا محسوس کرایا۔‘

  • سنڈی بشپ

    تھائی لینڈ اقوامِ متحدہ کی خواتین کی سفیر/ماڈل cindysirinya

    سنڈی سرینیا بشپ ایک ماڈل، اداکارہ اور ٹی وی شو کی میزبان ہیں اور خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے مہم چلاتی ہیں۔ اس سال انھیں ایشیا اور بحر الکاہل کے لیے اقوام متحدہ کی خواتین کی علاقائی خیر سگالی سفیر مقرر کیا گیا اور انھوں نے حکومتوں اور برادریوں کی مدد سے تعلیم اور صنفی مساوات کو فروغ دیا۔ جب 2018 میں تھائی لینڈ کے حکام نے خواتین کو تجویز دی کہ اگر وہ نئے تھائی سال کے تہواروں میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے سے بچنا چاہتی ہیں تو ’سیکسی نظر نہ آئیں‘ اس وقت سنڈی نے #DontTellMeHowToDress نامی تحریک کی بنیاد رکھی۔

    وہ ایشیا میں صنفی مساوات کے لیے مہم چلانے والے ایک علاقائی پلیٹ فارم، ڈریگن فلائی 360 کی نالج ڈائریکٹر بھی ہیں اور بچوں کی حفاظت، حقوق اور احترام کے رشتوں پر کتابوں کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔

    > سنہ 2020 میں دنیا بہت تبدیل ہوگئی ہے۔ تبدیلی کے ساتھ ترقی کے مواقع بھی ملتے ہیں۔ ہر ایک کو یکساں آزادی اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ہمیں اگلی نسل کی نوجوان خواتین اور مردوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہنا چاہیے۔

  • میکنلی بٹسن

    آسٹریلیا سائنسدان اور موجد

    میکنلی بٹسن نے اس وقت چیزیں ایجاد کرنا شروع کر دی تھیں جب وہ صرف سات سال کی تھیں۔ اب وہ 20 سال کی ہیں اور انھوں نے کئی مشینیں ایجاد کی ہیں، اور ان کا مقصد پستان کے کینسر کے مریضوں کے ریڈیوتھراپی کے نتائج بہتر بنانا اور ترقی پذیر ممالک میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنا ہے۔

    وہ آسٹریلوی نوجوانوں کے لیے ایک متاثر کن رول ماڈل بن چکی ہیں، اور انھیں دکھا رہی ہیں کہ وہ کس طرح ’سٹیم‘ کے ذریعے کمیونٹی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

    > تبدیلی لانے کی ہماری صلاحیت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں دنیا بھر کی خواتین سے گذارش کرتی ہوں کہ اپنے آپ سے پوچھیں، ’اگر میں نہیں، تو کون؟ اگر اب نہیں، تو کب؟‘

  • ایولینا کیبریرا

    ارجنٹائن فٹبال کوچ اور مینیجر evelinacabrera23

    ایولینا بہت کمزور پیدا ہوئی تھیں، لیکن یہ انھیں فٹ بال کوچ اور مینیجر بننے سے نہ روک سکی۔ انھوں نے 27 سال کی عمر میں ارجنٹائن کی وومنز فٹبال ایسوسی ایشن قائم کی۔

    انھوں نے کئی ٹیمیں تشکیل دیں (ان میں نابینا خواتین کے لیے فٹبال ٹیم بھی شامل ہے)، قیدیوں کو تربیت دی اور غیر محفوظ خواتین اور لڑکیوں کی کھلیوں اور تعلیم کے ذریعے مدد کی۔ وہ ارجنٹینا کی پہلی خاتون فٹبال مینیجرز میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اپنی ایک سوانح عمری بھی لکھی ہے جس میں برابری کے لیے اپنی لڑائی کی تفصیل رقم کی ہے۔

    > ہماری صنف اور یہ کہ ہم کہاں سے آئیں ہیں یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ہمارا مستقبل کیسا ہونا چاہیئے۔ یہ ایک مشکل راستہ ہے، لیکن ایک متحد دنیا کی مشترکہ جدوجہد کے ساتھ، ہم برابری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

  • وینڈی بیئٹریز کائشپال جاکو

    ایل سیلواڈور معذوری کی سرگرم کارکن wendy_caishpal

    وینڈی کائشپال ایک کاروباری، سرگرم کارکن، موٹیویشنل سپیکر، اور معذور لوگوں اور مسلح لڑائیوں میں بچ جانے والوں کے حقوق کی ترجمان ہیں۔

    وہ وومنز انسٹیٹیوٹ آن لیڈرشپ اینڈ ڈس ایبیلیٹی (ڈبیو آئی ایل ڈی) اور انٹرنیشنل موبیلیٹی یو ایس اے میں ایل سیلواڈور کی نمائندہ ہیں۔ وہ میونسیل پراجیکٹ آہوچاپان ود آؤٹ بیریئرز کی بانی اور ڈائریکٹر بھیں ہیں، جو معذور افراد کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

    > ہمیں اس سے پیار کرنا چاہیئے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور اسے کس طرح کرتے ہیں۔ چلیں ہم سب سماجی تبدیلی کے آلات بن جائیں: چلو ہم کچھ کریں، لڑیں، تبدیلی لائیں۔ اگر ہر کوئی اس کے لیے لڑے گا، تو ہم کو بہتر دنیا ملے گی۔

  • کیرولینا کاسٹرو

    ارجنٹائن حکومت

    کیرولینا کاسترو ارجنٹائن انڈسٹریل یونین (یو آئی اے) کی 130 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون ہیں جو اس کی کسی گورننگ پوزیشن پر پہنچی ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے اس ملک میں صنفی برابری کے ایجنڈے کو پارٹی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنانے میں مدد ملی ہے جہاں عوامی بحث انتہائی پولرائزڈ ہوتی ہے۔

    کاسترو اس خاندان کی تیسری نسل کی سربراہ ہیں جو کار کے پرزے بناتا تھا، جس نے خواتین کو دوکان میں مارکیٹ کی اوسطاً اجرت سے کہیں زیادہ پیسے دے کر دقیانوسی تصورات کا خاتمہ کیا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں ایک کتاب ’وی بروک دا گلاس‘ شائع کی، جو کہ ارجنٹائن کی 18 ایسی خواتین سے گفتگو پر مبنی ہے جنھوں نے کاروبار، آرٹس، سیاست اور سائنس میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔

    > برابری کا ایجنڈا غیر معمولی افراد آگے نہیں بڑھاتے، بلکہ یہ ہم میں سے ہر ایک، ہر صنف سے تعلق رکھنے والے، اور روزانہ کی ہماری ہر چھوٹی چوائس میں ہوتی ہے جو ہم کرتے ہیں۔

  • ایگنیس چاؤ

    جمہوریت نواز کارکن chowtingagnes

    ایگنیس چاؤ ہانگ کانگ کی ایک 23 سالہ جمہوریت نواز کارکن ہیں، جو 2014 کی امبریلا موومنٹ کے دوران ایک اہم شخصیت بن کر ابھریں۔ اس سال وہ بیجنگ کی طرف سے نافذ کیے گئے سکیورٹی کے متنازعہ نئے قانون کے تحت گرفتار کیے گئے چند کارکنوں میں سے ایک تھیں۔ ان پر ’غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر سازش‘ کا الزام عائد کیا گیا۔

    اس کے بعد سے وہ ضمانت پر رہا ہیں، لیکن ان کی گرفتاری کے بعد ان کو ہر طرف سے حمایت ملی۔ وہ 15 سال کی عمر سے سیاست میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان کے حمایتیوں نے انہیں ’ملن‘ کا لقب دیا ہے، جو کہ ایک افسانوی چینی ہیروئین ہے جو اپنے خاندان اور ملک کو بچانے کے لیے لڑتی ہے۔

    > خواتین کے حقوق کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ کوئی خاتون آپ کی رہنما ہے۔ ہمیں نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے، اور حقیقی جمہوریت کی۔

  • پیٹریس کولورز

    امریکہ انسانی حقوق کی کارکن

    آرٹسٹ، منتظم، معلم اور مشہور مقرر پیٹریس کولرز لاس انجلیز کی رہنے والی بلیک لائیوز میٹر گلوبل نیٹ ورک کی شریک بانی اور ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر اور لاس انجلیز میں قائم تنظیم ڈگنیٹی اینڈ پاور ناؤ کی بانی ہیں۔

    پیٹریس اس وقت ایریزونا کے پریسکوٹ کالج کے نئے سوشل اینڈ انوائرنمینٹل آرٹس پریکٹس کے ایم ایف اے پروگرام کی فیکلٹی ڈائریکٹر ہیں۔ یہ پروگرام انھوں نے ہی ترتیب دیا ہے۔

    > کبھی ہار نہ مانیں۔ اپنی خوشیوں کی فصل اگائیں۔ اور تبدیلی کا مطالبہ کریں، نہ صرف اپنے لیے، بلکہ ان خواتین کے لیے جو آپ کے بعد آئیں گی۔

  • سیتسی دانگاریمبگا

    زمبابوے رائٹر اور فلم میکر

    ستیسی ایک مشہور مصنف، فلم میکر اور ثقافتی کارکن ہیں۔ انھوں نے ایوارڈ یافتہ کتابیں لکھی ہیں جنھیں زمبابوے کی کلاسیکی کتابیں سمجھا جاتا ہے۔ ان کی فلموں کی سکریننگ دنیا بھر کے فلمی میلوں میں ہوئی ہے، جس میں سن ڈانس فیسٹیول بھی شامل ہے۔ وہ ہرارے میں رہتی ہیں اور مقامی افریکی خواتین فلم میکرز کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

    اس سال زمبابوے میں شہری احتجاج دیکھے گئے ہیں، جن میں مظاہرین نے حکومت پر کرپشن اور بد انتظامی کا الزام لگایا ہے۔ ستیسی بھی ان مظاہرین میں سے ایک تھیں جنھیں مظاہرے کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ ان پر تشدد کے لیے بھڑکانے اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے متعارف کرائے گئے صحت کے قوانین کی خلاف ورزی کی فردِ جرم عائد کرنے کے بعد انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ ان کے ساتھی مصنفین نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات، جن کی وہ تردید کرتی ہیں، ختم کر دیے جائیں۔

    > تبدیلی سے نہ ڈریں۔ اسے ایسی تبدیلی بنائیں جو آپ کے کام آئے۔

  • شانی دھندا

    برطانیہ معذوری کی کارکن

    شانی دھندا ایک ایوارڈ یافتہ معذورسپیشلسٹ اور سماجی بزنس وومن، جنھیں برطانیہ کے سب سے با اثر معذور افراد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شانی نے ڈائورس ابیلیٹی کارڈ، دی ایشیئن وومن فیسٹیول اور دی ایشیئن ڈس ایبیلیٹی نیٹ ورک کی بنیاد رکھی تھی اور اب بھی انھیں چلا رہی ہیں۔

    تینوں پلیٹ فارمز ایک مقصد پر متحدہ ہیں اور وہ یہ کہ ان برادریوں کو با اختیار بنایا جائے جن کی پوری طرح سے نمائندگی نہیں ہوتی۔

    > جیسی ہی دنیا بحال ہوتی ہے، یہ ہماری مجموعی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ہم سب کے لیے ایک جامع اور پائیدار مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

  • ناؤمی ڈکسن

    برطانیہ چیف ایگزیکیوٹیو

    ناؤمی نے اپنی پروفیشنل زندگی گھریلو تشدد کی شکار یہودی خواتین اور بچوں کے لیے وقف کر دی ہے۔ وہ یہودی برادری کو تعلیم دیتی ہیں تاکہ اب اور مستقبل میں گھریلو تشدد کو روکنے، اطلاع دینے اور مدد مانگنے کے لیے ان کے پاس آلات موجود ہیں۔

    بطور جیوئش وومنز ایڈ کی سی ای او کے ناؤمی سبھی مذاہب کی خواتین کے ساتھ کام کرنا پسند کرتی ہیں، اور برادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو تعلیم دیتی ہیں کہ ایک ایسی دنیا تشکیل دی جائے جس میں عورتوں اور بچیوں کے خلاف کسی قسم کا تشدد برداشت نہ کیا جائے۔

    > دنیا 2020 میں کافی بدل گئی ہے اور ہم نے خود میں لچک پیدا کرنا سیکھا ہے تاکہ ہم دوسروں کی مدد کے قابل ہوں۔

  • کیرن ڈولوا

    ناروے موجد

    کیرن ڈولوا اوسلو میں قائم ایک سٹارٹ ’نو آئیسولیشن‘ کی سی ای او اور شریک بانی ہیں جس کی بنیاد اکتوبر 2015 میں رکھی گئی تھی۔ اس کا مشن لوگوں کو ہمدرد ٹیکنالوجی اور علم کے ذریعے اکٹھا کرنا ہے۔

    اب تک کمپنی نے دو چیزیں بنائی ہیں: اے وی 1، جو کہ ٹیلی سکوپ کی ایک قسم ہے اور یہ ان تنہائی کا شکار بچوں اور نوجوانوں کے لیے بنائی گئی ہے جو لمبے عرصے تک بیماری سے متاثر رہے ہوں۔ دوسری ایجاد کا نام کومپ ہے، جو کہ ایک بٹن والی رابطہ کرنے والی مشین ہے اور اسے خاص طور پر بزرگوں کے استعمال کے لیے بنایا گیا ہے۔

    > ہم کووڈ۔19 کو بہانہ بنا کر اپنی لڑائی ختم کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ بیدار ہونے کی ایک گھنٹی ہونی چاہیئے: سب سے زیادہ کمزور افراد کو سب سے کاری ضرب لگتی ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ اس وقت کو تبدیلی لانے کے لیے استعمال کریں اور جن کو خطرہ ہے ان کا تحفظ کریں۔

  • الواد المان

    صومالیہ امن کی کارکن

    الواد ایک نوجوان خاتون رہنما ہیں جو صومالیہ کے امن کے عمل میں پیش پیش ہیں۔ وہ لڑائی کو ختم کروانے اور برادریوں کے درمیان صلح کروانے میں ایک عالمی اتھارٹی سمجھی جاتی ہیں۔

    20 سال کی عمر میں وہ صومالیہ کے پہلے ریپ کرائسس سینٹر کی شریک بانی بنیں۔ گذشتہ دہائی میں الواد امن قائم کرنے والی چیمپیئن اس وقت کہلائیں جب وہ لڑائی سے متاثرہ سبھی افراد، خصوصاً عورتوں اور لڑکیوں کو میز پر نشست دلوانے میں کامیاب ہوئیں۔

    > عالمی وبا نے دنیا کو ہمدردی کا ایک کریش کورس مہیا کیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ خواتین نے وہاں قیادت دکھائی جہاں دوسرے ناکام ہوئے۔ خواتین کی قیادت کو اب دوسرے آپشن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیئے، بلکہ یہ ایک بنیادی ترجیح ہونی چاہیئے۔

  • جوئنگ یون کی یونگ

    جنوبی کوریا کے ڈی سی اے کمشنر

    ڈاکٹر جوئنگ یون کی یونگ کو ’وائرس ہنٹر‘ کہا جاتا ہے اور انھوں نے عالمی وبا کووڈ۔19 کے خلاف جنوبی کوریا کے ردِ عمل کی سربراہی کی تھی۔

    بطور کوریا ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن ایجنسی (کے ڈی سی اے) کے حالیہ کمشنر، اور اس سے پہلے کے ڈی سی اے کی پہلی خاتون سربراہ کے، انھیں ان کی شفافیت اور عالمی وبا سے متعلق روزانہ کی میٹنگز پرسکون انداز میں کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

    > میں ان تمام ہیلتھ کیئر ورکرز کو دلی خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں جنھوں نے عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے۔ میں بیماری کا مقابلہ کرنے والی صلاحیتوں کو مزید مضبوط بناتے ہوئے دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کروں گی۔

  • فینگ فینگ

    چین لکھاری

    فینگ فینگ، جن کا اصلی نام وینگ فینگ ہے، چین کی ایک ایوارڈ یافتہ مصنفہ ہیں اور انھوں نے 100 سے زیادہ چیزیں لکھی ہیں۔ اس سال انھوں نے ووہان میں ہونے والے واقعات کو ڈاکیومنٹ کرنا شروع کر دیا، جہاں کورونا وائرس کی وبا سے پہلے پھیلی تھی۔ ان کی ڈائیری نے چین میں اس شہر کے اندر کی ایک سرسری جھلک دکھائی، اور انھوں نے روزانہ کی زندگی کے چیلنجز سے لے کر زبردستی کی تنہائی کے نفسیاتی اثرات تک کے متعلق ہر بات لکھی۔

    جب ڈائری کو اس کے انگریزی میں ترجمے کی وجہ سے زیادہ بین الاقوامی پذیرائی ملی، تو ان کے خلاف ایک آن لائن مہم نے زور پکڑ لیا۔ چین میں بہت سے لوگوں کو ان پر غصہ آیا، اور انھیں غدار وطن بھی کہا گیا۔

    > آزاد اور خودمختار رہیں۔

  • آیلین فلن

    جمہوریہ آئرلینڈ سینیٹر

    آیلین فلن آئرش خانہ بدوش برادری کی پہلی خاتون ہیں جنھوں نےرپبلک آف آئرلینڈ کے ایوان بالا کی رکنیت حاصل کی ہے۔

    وہ اب اپنی حیثیت سے جمہوریہ آئرلینڈ کے خانہ بدوشوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی مدد کر رہی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ملک میں نفرت پر مبنی جرائم کے سد باب کے لیے کوئی قانون متعارف کیا جائے۔

    > ایک دوسرے کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں، کبھی کسی دوسری خاتون نیچے گرانے کی کوشش نہ کریں۔ کسی اور کی موم بتی کو پھونک مار کر بھجانے سے آپکی اپنی موم بتی زیادہ روشن نہیں ہو گی۔ جب ہم اکٹھی کھڑی ہوں تو ہماری لو دنیا کو آگ لگا سکتی ہے۔

  • لارین گارڈنر

    امریکہ سائنسدان

    لارین گارڈنر جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں انجینیئرنگ کی پروفیسر اور سینٹر فار سسٹمز سائنس اینڈ انجینیئرنگ کی شریک ڈائریکٹر ہیں۔

    گارڈنر نے اس ٹیم کی سربراہی کی جس نے کووڈ۔19 کے ناگزیر ٹریکر کو بنایا اور جو کووڈ۔19 کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایک مستند ذریعہ بنا۔ اسے دنیا بھر میں حکومتیں، متعدی بیماریوں کے تحقیق کار اور میڈیا کے ادارے استعمال کرتے ہیں۔

    > اجازت کا انتظار نہ کریں۔ اپنی نشست پہ بیٹھیں اور ایکشن لیں۔

  • جین فونڈا

    امریکہ اداکارہ

    پردے پر جین فونڈا دو بار اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اداکارہ ہیں جنھیں کلٹی، کمنگ ہوم ، آن گولڈن پونڈ اوار نائن ٹو فائیو جیسی فلموں کے لیے سراہا جاتا ہے۔ آج کل وہ اس وقت وہ نیٹ فلکس کی مشہور سیریز گریس اینڈ فرینکی میں نظر آ رہی ہیں۔

    آف سکرین ، وہ 50 سال سے زیادہ عرصے سے خواتین کے حقوق سے لے کر بخشیش کی رقم پر انحصار کرنے والے ملازمین کے لیے مناسب تنخواہوں کے لیے کام کرنے والی سماجی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ اور حال ہی میں انھوں نے گرینپیس یو ایس اے کے ساتھ فائر ڈرل فرائیڈے کا آغاز کیا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے خلاف تعلیم اور احتجاج کے ذریعے ہفتہ وار احتجاج منعقد کرتے ہیں۔

    > دنیا، سائنسی توقعات سے کہیں زیادہ تیزی سے گرم ہو رہی ہے۔ انسانیت کو ایک بحران کا سامنا ہے۔ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ لیکن خواتین اس بحران کو سمجھتی ہیں۔ خواتین سمجھتی ہیں کہ ہم سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ موسمیاتی تبدیلی کے بحران کا خمیازہ بھگت رہی ہیں اور یہی خواتین ہمیں حل کی طرف لے جانے والی ہیں۔ آئیے مل کر اس مسئلے کو حل کرتے ہیں۔

  • الیشیا گارزا

    امریکہ انسانی حقوق کی کارکن

    الیشیا گارزا ایک منتظم، سیاسی حکمت عملی بنانے والی، اور کتاب ’دی پرپز آف پاور: ہاؤ کین وی کم ٹوگیدر وین وی فال اپارٹ‘ کی مصنفہ ہیں۔

    وہ بلیک فیوچرز لیب اور بلیک ٹو دی فیوچر ایکشن فنڈ کی پرنسپل، بلیک لائیوز میٹر اور بلیک لائیوز میٹر گلوبل نیٹ ورک کی شریک خالق، نیشنل ڈومیسٹک ورکرز الائنس کی ڈائریکٹر آف سٹریٹیجی، سپر میجوریٹی کی شریک بانی اور لیڈی ڈونٹ ٹیک نو پاڈکاسٹ کی میزبان ہیں۔

    > پیر زمین پر رکھیں، سر بلند کریں اور اپنی نگاہیں ہدف پر گاڑ لیں۔

  • سارہ گلبرٹ

    برطانیہ سائنسدان

    جیسے ہی چینی سائنسدانوں نے نئے کورونا وائرس کی تفصیلات شائع کیں، آکسفورڈ میں سارہ اور ان کی ٹیم فوری طور پر کام میں لگ گئی۔ اس کے بعد انھوں نے کووڈ۔19 کی ویکسین بنا لی ہے جو کہ اب کلینیکل ٹرائل کی تیسرے مرحلے پر ہے۔

    سارہ ایک سائنسدان ہیں جو مائیکروبائیولوجی، بائیوکیمسٹری، مالیکیولر ورولوجی اور ویکسینولوجی جیسے شعبوں میں تربیت یافتہ ہیں۔ وہ 2014 سے نئی بیماریوں کے خلاف ویکسین تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

    > ہمیں اتنے لچکدار ہونا چاہیئے کہ یہ سال گذر جائے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس بات پر توجہ دیں کہ اصل میں کیا اہم ہے: صحت، تعلیم اور دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات۔

  • میگی گوبران

    مصر stephenschildrenus

    ماما میگی نے اپنی زندگی مصر میں بے سہارا بچوں کی زندگیاں بدلنے کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ عیش و عشرت کی زندگی اور اپنے تعلیمی کریئر کو ترک کر کے انھوں نے اپنی تمام تر توجہ اور وسائل ان بچوں کے لیے، ان کے پاؤں دھونے، ان کی آنکھوں میں دیکھنے اور انھیں یہ بتانے میں لگا دیے ہیں کہ وہ اہمیت رکھتے ہیں۔

    سنہ 1989 سے ماما میگی اور ان کی ٹیم کی کوششوں سے ہزاروں بچوں کی زندگیاں بدل چکی ہیں۔ انھوں نے ان بچوں کو نفسیاتی صحت،تعلیم، ہیلتھ کیئر کے ساتھ ساتھ سب سے بڑھ کر عزت نفس دی ہے

    > جب آپ اپنی ذات کے ساتھ مصالحت کر لیتے ہیں تو آپ جنت اور زمین کے ساتھ مصالحت کر لیتے ہیں۔

  • ریبیکا گیومی

    تنزاینہ وکیل

    ریبیکا گیومی ایک مقامی فلاحی تنظیم مسیچنا انیشیٹو کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، وہ صنفی برابری کی وکیل ہیں اور قومی اور انتہائی نچلی سطح پر خواتین کے ساتھ کام کرنے اور تحریکوں کا آغاز کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔

    سنہ 2019 میں مسیچنا انیشیٹو نے تنزانیہ میں ایک اہم مقدمہ جیتا جس میں کم عمر بچوں کی شادیوں پر پابندی عائد کی گئی جبکہ شادی کی کم سے کم عمر 18 کر دی گئی۔

    > جب مشکلات بڑھ جائیں تو ہمت والے حوصلہ نہیں چھوڑتے۔ آئیں دوبارہ عہد کرتے ہیں جدوجہد جاری رکھنے کا، اپنا سفر جاری رکھنے کا، اپنی آوازوں کو اپنانے کا جب تک کہ صنفی برابری کا ایجنڈا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ جاتا۔

  • دیتا ہیڈمین

    جمیکا ڈارٹس فاتح

    دیتا نے 22 برس رائل میل میں کام کیا ہے۔ وہ اب تک 215 ٹائٹلز اپنے نام کر چکی ہیں جو اس کھیل میں دوسرا بڑا نمبر ہے۔ ان کو اب تک صرف فل ٹیلر سے شکست ہوئی ہے۔ وہ 314 فائنل مقابلوں میں پہنچ چکی ہیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ وہ سنہ 1973 میں انگلینڈ آئیں اور انگلینڈ کی موجودہ قومی ٹیم کی کپتان ہیں۔

    وہ خیراتی ادارے ہارٹ آف ڈارٹس اور انگلینڈ یوتھ ڈارٹس کی سفیر ہیں اورورلڈ ڈارٹس فیڈریشن بورڈ کی رکن بھی ہیں۔عالمی درجہ بندی میں ان کا نام گیارہ مرتبہ پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔

    > میں تمام خواتین پر زور ڈالوں گی: اپنے خواب کی پیروی کریں اور کبھی ہمت نہ ہاریں۔ عمر، جنس اور نسل نہ جیتنے کی وجہ نہیں ہیں، آپ کو صرف ایک زندگی ملی ہے اسے بھرپور طریقے سے جیئے۔ یقین کریں۔

  • میویسر عبدالعہد

    چین کے علاقے گھلجا سے تعلق رکھنے والی ایک جلا وطن ویغر (اسے چینی زبان میں یننگ کہا جاتا ہے) مصنف

    میویسر عبدالعہد نے، جن کا قلمی نام ہیندن ہے، طب کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی بطور شاعر اور مضمون نگار اپنا نام بنانا شروع کر دیا تھا۔ جب تک انھوں نے پبلک ہیلتھ میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی، وہ لکھنے پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کر چکی تھیں۔ 2013 میں ترکی منتقل ہونے کے بعد، ہینڈن نے آیہان فاؤنڈیشن قائم کی جو کہ ملک سے باہر رہنے والے ویغروں کو ویغر زبان سکھانے اور اسے فروغ دینے والی ایک تنظیم تھی۔ وہ اب استنبول میں رہتی ہیں۔

    ہیندن کا حالیہ کام ان کے اپنے وطن کے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا پہلا ناول، خیئر خوش کیویاش (فیئر ویل ٹو دا سن)، ویغر علاقے میں موجود عسکری نظر بندی کیمپوں کے متعلق ہے جو کہ اس موضوع پر پہلا توسیع شدہ فکشن ہے۔

    > بچے ہمیشہ کسی بھی قوم کی امید ہوتے ہیں اور تعلیم کے زریعے اس امید امید کو حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

  • اویایدو ایکپے ایتم

    نائجیریا سلم ساز

    اویایدو ہم جنس پرست، حقوس نسواں کی علمبردار، فلم ساز، ڈائریکٹر اور ایل جی بی ٹی کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ انھوں نے نائجیریا میں محرومیوں کے شکار طبقے کے لیے بہت سی کہانیوں پر کام کیا ہے۔

    ان کی فلم ’ایفی‘ جس کا مطلب ہے ’محبت‘ ایسی دو ہم جنس پرست خواتین کی کہانی ہے جو اپنے ملک میں ہم جنس پرستی سے متعلق سخت خیالات کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں۔ فلم کی ریلیز کی خبر آنے کے بعد اسے سنسر شب کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ نائجیریا میں ہم جنس پرستی انتہائی متناژعہ مسئلہ ہے۔

    > خواتین اپنے لیے جگہ بناتی رہیں اور ان لوگوں کی کہانیاں بتاتی رہیں جن کی آوازوں کو ان سے چھین لیا گیا ہے۔

  • میہو عمادہ

    جاپان

    ساکے (جاپانی شراب) تیار کرنا روایتی طور پر مردوں کا پیشہ رہا ہے اور ساکے بنانے والے مقامات پر خواتین کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔

    لیکن اب مہیو کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک مرد جو شراب بناتے تھے وہ ریٹائر ہو گئے تو مہیو نے خود تربیت حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ ان کا شمار جاپان کی ان گنی چنی عورتوں میں ہو جائے جو ساکے تیار کرتی تھیں۔ اس وقت پورے ملک میں ایسی صرف 20 خواتین ہیں۔

    > اگر آپ کو ایسی کوئی نوکری مل جائے جس کے لیے آپ ساری عمر لگانے کو تیار ہوں، تو ضرور کریں۔ اگر آپ اپنے کام کو وہ مقام دیں اور دیانت سے کریں تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

  • نادین کادان

    فرانس مصنف/مصور

    فرانسیسی نژاد شامی مصنفہ نادین کادان آٹھ برس کی عمر سے کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ انھوں نے بڑے ہوتے ہوئے جو کتابیں پڑھیں ان میں نمائندگی کی سطح سے غیر مطمئن ہو کر انھوں نے ایسی کہانیاں لکھنے کے مشن کا آغاز کیا جس میں ہر بچہ اپنے آپ کو دیکھ سکے۔

    اپنے ثقافتی ورثے سے متاثر اور عرب دنیا میں پڑھنے کے رواج کو پھیلانے کی خواہش نے، ان کی کہانیوں میں مشرق وسطیٰ میں بحران اور خصوصی ضرورتوں والے بچوں کے موضوعات پر لکھا۔

    > تنازعہ ہو یا کوویڈ 19، خواتین امن پھیلانے اور رہنمائی کا اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ نظامی ڈھانچے ہمارے خلاف ڈیزائن گیے گئے ہیں۔ ان ڈھانچوں کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کی کوشش جاری رہنی چاہیے تاکہ خواتین مکمل طور پر اپنا اظہار کر سکیں۔

  • ایریکا بیکر

    جرمنی انجینیئر

    ایریکا ’گٹ ہب‘ نامی کمہپنی میں بطور انجینیئرنگ ڈائریکٹر کا م کرتی ہیں۔ ان کا کیریئر 19 برس پہلے شروع ہوا جب وہ یونیورسٹی آف الاسکا کے لیے کمپیوٹر کی دیکھ بال کا کام کرتی تھی۔ پھر سنہ 2006 میں انھوں نے گوگل میں ملازمت پائی۔

    سنہ 2015 میں وہ سلیک آئیں، 2017 میں پیٹریئن چلی گئیں۔ وہاں سے انھوں نے مائیکروسافٹ کا رخ کیا اور پھر وہ گٹ ہب آ پہنچیں۔ وہ بلیک گرلز کوڈ، ہیک دی ہڈ، کوڈ ڈاٹ آرگ ڈائئورسٹی کاونسل جیسی کئی تنظیموں کے بورڈ پر موجود ہیں۔ وہ اس وقت امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شےر اوک لینڈ میں رہائش پزیر ہیں۔

    > سنہ 2020 میں دنیا کافی بدل گئی ہے اور جیسے جیسے ہم پھر سے ایثار اور روابط کی اہمیت سمجھنا شروع کر رہے ہیں، ہمیں یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ دنیا ہر کسی کے لیے مساوی نہیں۔ میں خواتین پر زور دیتی ہوں کہ وہ اپنی طاقت کا ساتعمال کریں اور آزادی، انصاف اور مساوی سلوک کے لیے جدوجہد کریں۔

  • مولینگا کپویپوی

    زیمبیا فنکار

    مولینگا مپونڈا کپویپوی نے سنہ 2020 میں زیمبائی خواتین کی تاریخ کے ایک میوزیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد زیمبائی خواتین کا اپنی قوم کے لیے کام اور تعاون کو یادگار بنانا تھا۔ انھوں نے زیمبیا کے دارالحکومت لوساکا میں بچوں کی لائبریریاں بھی تعمیر کی ہیں۔

    انھوں نے زمبیا کے نیشنل آرٹس کونسل کی 2004 سے 2017 تک سربراہی کی اور اس کے علاوہ ملک میں فن و ثقافت کی کئی تنظیموں کی رہنمائی کی۔

    > تبدیلی کو اپنا موقع بنائیں

  • ڈاکٹر جیمیمہ کریوکی

    کینیا ڈاکٹر

    ڈاکٹر جیمیمہ زندگی بچنے والی ادویات اور خاص طور پر زچگی اور بچوں کی صحت سے متعلق ادویات کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ وہ کینیا کے پیس کلب کی بانی ہیں جو 2007 میں انتخابت کے بعد ہونے والی خونریزی کے جواب میں وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ بچہ دانی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے والے پبلک ہیلتھ کلب کی بنیاد بھی انھوں نے ہی رکھی۔

    امراض نسواں کی طالبہ کی حیثیت سے انھوں نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران نافذ کردہ کرفیو میں زچگی کے داخلوں میں بہت زیادہ کمی لیکن پیچیدگیوں میں اضافہ دیکھا۔ انھیں احساس ہوا کہ محدود نقل و حمل کی وجہ سے صحت عامہ تک رسائی میں تاخیر ہوئی ہے۔ انھوں نے اس کے لیے ایک حل پیش کیا: لائسنس شدہ گاڑیاں خواتین کو ان کے گھروں سے ہسپتال پہنچائیں گی اور اسی وجہ سے مفت ایمبولینس سروس ’ویلز فار لائف‘ کا آغاز ہوا۔

    > وبا نے سب کو متاثر کیا ہے اور آپ اکیلے نہیں۔ بہرحال وہ خیال جو آپ کو روز پریشان کیے جاتا ہے آپ کے لیے ایک بلاوا ہو سکتا ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے گھبرائیے مت۔ آپ کسی اور کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔

  • جیکی کے

    سکاٹ لینڈ، برطانیہ شاعرہ

    جیکی کے کا تعلق سکاٹ لینڈ سے ہے اور وہ ایک شاعرہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ سنہ 2016 میں انھیں سکاٹ لینڈ کی قومی شاعر قرار دیا گیا۔ ان کی آپ بیتی ’ریڈ ڈسٹ روڈ‘ میں وہ اپنے حقیقی والدین کی تلاش کی روداد بیان کرتی ہیں۔

    وہ یونیورسٹی آف سکاٹ لینڈ کی چانسلر ہیں۔ وہ اپنے کام کے لیے متعدد انعام جیت چکی ہیں اور سنہ 2020 میں انھیں ادب کے لیے اپنی خدمات سرانجام دینے پر سی بی ای سے نوازا گیا

    > ہمیں کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ اس سال پوری دنیا میں ہونے والے مظاہروں نے مجھ میں ایک عجیب طرح کی امید بھر دی ہے۔

  • سلسبیلا خیرالنسا

    انڈونیشیا ماحولیاتی مہم چلانے والی jaga_rimba

    سلسبیلا 17 برس کی ایک طالب علم ہیں جن کا تعلق انڈونیشیا کے شہر جکارتہ سے ہے۔ ہر جمعے کے روز وہ وزارت ماحولیات اور جنگلات کے دفتر کے سامنے جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے ایک احتجاج کی قیادت کرتی ہیں۔

    15 برس کی عمر میں انھوں نے نوجوانوں کی زیر قیادت تحریک جاگا رمبا کا آغاز کیا۔ یہ تنظیم جنگلات کے تحفظ کے علاوہ کینیپان کے جنگوں میں آباد مقامی کمیونٹی کے حقوق کے لیے بھی لڑ رہی ہے جو اپنے گھروں سے محروم ہو رہے ہیں۔

    > وبائی مرض نے ہمیں اجتماعی شعور دیا ہے کہ ہم سب منافع کے لیے موجود ایک سرمایہ دارانہ نظام کا شکار ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یکجہتی میں ایک ہو جائیں اور صرف سبز اور بحالی کی راہ کو ہموار کریں۔

  • اینجیلیق کڈجو

    بینین موسیقار

    چار بار گریمی ایوراڈ جیتنے والی اینجیلیق کڈکو عالمِ موسیقی کے عظیم ترین ناموں میں سے ایک ہیں۔انھوں نے مغربی افریقی موسیقی کو مغربی موسیقی کی مختلف قسموں جیسے جاز، آر اینڈ بی اور فنک کے ساتھ ڈھالا ہے اور ساتھ ساتھ ان میں یورپی اور لاطینی موسیقی کی بھی جھلک شامل کی ہے۔

    ٹاکنگ ہیڈز کی البم ریمین ان لائٹ میں انھوں نے افریقی دیاسپورا پر روشنی ڈالی تھی۔ اب فرنچ_بنین اب معروف گلوکارہ سیلیا کروز کی افریقہ سے منسلک ماضی کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ ایجنیلیق یونیسیف کی سفیر بھی ہیں اور بچوں کے حقوق کے لیے اپنی تنظیم بٹونگا کے ذریعے کام کرتی ہیں جو افریقہ میں کم عمر لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں مصروف ہے۔

    > ہمیں یکجہتی، پیار اور طاقت کے ساتھ ایک دوسرے کا خیال کرتے رہنا چاہیئے۔ چلیں ایک دوسرے کا محافظ بننے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ یہ یکجہتی سماجی طبقوں، لسانیت اور جنسی رجحان سے آگے ہونی چاہیئے۔

  • چو کم دک

    ویتنام ماہر تعمیرات kim_duc_

    ماہر تعمیرات کم دک اپنے ملک ویتنام میں بچوں کو کھیلنا کا حق ملنے کی مہم پر کام کر رہی ہیں۔ تھنک پلے گراؤنڈز نامی تنظیم کی بانی کم دک اپنے ملک میں مختلف کمینوٹیز کے ساتھ 180 سے زیادہ عوامی پلے گراؤنڈز تیار کر رہی ہیں جنھیں بنانے میں ری سائیکل سامان استعمال ہوا ہے۔

    اس کے علاوہ کم دک ویتنام کے نیشنل چلڈرن ہسپتال میں ’پلے گراؤنڈ تھیراپی‘ کر رہی ہیں اور ہنوئی شہر میں ایک ایسے پلے گراؤنڈ کو تیار کر رہی ہیں جس میں کاربن کا کم سے کم استعمال ہوا ہو۔

    > زندہ دل رہیں! اپنے کام میں اور اپنی زندگی میں۔ اصل بات ہے کہ ہمیشہ کچھ سیکھتے رہیں، یہیں آپ کو آگے بڑھنے کے لیے ہمت دے گا۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کو کیا کرنے میں سب سے زیادہ مزا آتا ہے۔ جذبے کے ساتھ، ہر در کچھ سیکھنے سے ہی ہم دشواریوں سے نمٹ سکتے ہیں اور پر امید رہ سکتے ہیں۔

  • اشتر لاکھانی

    جنوبی افریقہ سماجی کارکن

    اشتر ایک فیمینسٹ اور سماجی کارکن ہیں اور خود کو ’مشکل پیدا کرنے والا‘ کہتی ہیں۔ وہ جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں جہاں وہ انسانی اور سماجی حقوق کی تنظیموں اور تحریکوں کے ساتھ کام کرتی ہیں اور انسانی حقوق کے سلسلے میں ان کے پیغام اور اقدامات کو موثر بنانے میں مدد کرتی ہیں۔

    اس سال انھوں نے ’فری دا ویکسین‘ مہم میں بڑا اہم کردار ادا کیا جو کہ ’سینٹر فار آرٹسکٹ ایکٹوزم‘ نے شروع کی تھی۔ اب وہ اس مقصد پر کام کر رہی ہیں کہ کووڈ 19 کی دوا مناسب قیمت پر ہر کسی کو دستیاب ہو۔

    > اس قسم کے کام کرنا ہمیں بڑا اچھا موقع دیتے ہیں کہ ہم اپنے لیے بالکل مختلف مستقبل بنائیں، بجائے ایسے نظام کو ٹھیک کرنے میں وقت لگایا جائے جو ہماری خوشیوں کو نظر انداز کرنے کے لیے بنایا گیا ہو۔

  • کلاڈیا لوپیز

    کولمبیا مئیر

    کلاڈیا لوپیز کولمبیا کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر بوگوٹا کی پہلی خاتون مئیر ہیں۔

    ایک استاد کے گھر پیدا ہونے والی کلاؤڈیا نے بطور رکن سبز اتحاد پارٹی 2014 سے 2018 تک سینیٹر کا کردار ادا کیا۔ انھوں نے بدعنوانی کے خلاف ایک مقبول قانون پر کام کیا جس کی حمایت ڈیڑھ کروڑ یعنی 99 فیصد کے قریب لوگوں کی جانب سے کی گئی تھی، جو کہ کولمبیا کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

    > دنیا بھر کی خواتین کے لیے میں کہتی ہوں: رکیں مت۔ گذشتہ صدی شروع ہونے والا سماجی انقلاب اب نہیں تھمے گا۔ ہم اب تبدیلیاں دیکھیں گے جو ہماری عوامی اور نجی زندگیوں میں نظر آئے گا۔

  • جوسینا میشل

    موزمبیق سماجی کارکن JosinaZMachel

    جوسینا میشل بڑے طویل عرصے سے انسانی حقوق کے دفاع کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت دلچسپی رکھتی ہیں اور اسے اپنی زندگی کا مقصد کہتی ہیں۔

    لندن سکول آف اکنامکس سے انھوں نے ماسٹرز حاصل کیا۔ وہ خود گھریلو تشدد کا شکار رہی ہیں لیکن اس واقعےکو انھوں نے اپنے لیے ایک سبق کے طور پر لیا اور اب وہ ’کہولکا تحریک‘ چلا رہی ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد ہے کہ وہ جنس پر مبنی تشدد کے خلاف سماجی تبدیلی لانے کی کوشش کرے اور افریقہ کے جنوبی خطے میں تشدد سے متاثرہ افراد کے لیے پناہ گاہ فراہم کرے۔

    > خواتین پر ڈالی گئی ذمہ داریوں کے اثرات کا ابھی تک تعین نہیں کیا جا سکا ہے لیکن ہماری ثابت قدمی ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ ہم ایسی مائیں، بہینں، بیویاں اور رہنما بنیں جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔

  • صنا مارِن

    فن لینڈ فن لینڈ کی وزیر اعظم

    صنا مارن فن لینڈ کی وزیر اعظم ہیں اور ملک کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما ہیں۔ جس اتحادی حکومت کی وہ سربراہ ہیں اس میں دیگر چار جماعتوں کا اتحاد ہے اور ان چاروں جماعتوں کی رہنما خواتین ہیں۔ ماریہ اوہیسالو (گرین لیگ) لی انڈیرسن (لیفٹ الائنس)، اینا ماجا ہینرکسکن (سوئڈیش پیپلز پارٹی) اور اینا ساریکو (سینٹر پارٹی)

    فن لینڈ کی عالمی سطح پر کووڈ 19 کی وبا کے خلاف لیے گئے اقدامات کی تعریف ہوئی ہے اور نومبر 2020 تک پورے یورپ میں کم سے کم انفیکشن ریٹ والے ممالک میں فن لینڈ شامل ہے۔

    > ہم خواتین رہنما یہ دکھا سکتی ہیں کہ وائرس سے لڑنا ممکن ہے اور ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی، تعلیم کے شعبے میں سرمایہ لگانا اور معاشرے کو انصاف پسند بنانا ممکن ہے۔

  • بولیلوا مکوٹوکانا

    جنوبی افریقہ گلوکارہ zaharasa

    بولیلوا مکوٹوکانا اپنے ایک اور نام زاہارا سے مقبول ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی زاہارا نے سکول میں گانا شروع کیا اور اس کے بعد ’بسکنگ‘ کا پیشہ اختیار کیا جس میں لوگ سڑکوں پر گانے گا کر اپنی روزی کماتے ہیں۔ لیکن جب 2011 میں انھوں نے اپنا پہلا البم جاری کیا تو وہ انتہائی مقبول ہوا اور تین ہفتوں میں ’ڈبل پلاٹینم‘ حاصل کر گیا۔

    زاہار کو متعدد اعزازات دیے گئے ہیں اور وہ ایک کامیاب کرئیر بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے جنوبی افریقہ میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے، اور انکشاف کیا کہ ایسا ظلم ان کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

    > دعاؤں نے ہی مجھے ہمت دی ہے کہ میں آگے بڑھتی رہوں۔ دعا کو کوئی چیز شکست نہیں دے سکتی۔

  • لوسی موناہان

    شمالی آئرلینڈ سماجی کارکن

    لوسی موناہان نے اس سال بطور ریپ متاثرہ اپنی شناخت ظاہر کرنے پر آمادگی ظاہر کر لی تاکہ وہ اس اس بارے میں بات کر سکیں کہ شمالی آئرلینڈ میں پولیس اور حکام نے ان کے ساتھ کیسے سلوک کیا جب انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی رپورٹ کی۔ پولیس نے شروع میں ان کو بولا کہ وہ ’فلرٹ‘ کر رہی ہیں اور ان کے کیس میں کسی کو مورد الزام نہیں ٹھیرایا جائے گا۔

    لوسی نے حکام کے خلاف عدالت میں مقدمہ کیا تاکہ ان کی تفتیش میں ناکامی پر سوال کیے جائیں اور اس کے نیتجے میں ملک میں قوانین میں تبدیلی کی گئی کے ریپ متاثرین کے ساتھ کیسے برتاؤ کرنا چاہیے۔ لوسی اب اپنے جیسے دیگر متاثرین کی مدد کر رہی ہیں اور 2019 میں انھوں نے جج گلن کے اس جائزے میں حصہ لیا جس نے قانون میں تبدیلی کے لیے 250 سے زیادہ مشورے دیے۔

    > انھوں نے کہا کہ تم نہیں کر سکو گی۔ میں نے پھر بھی کیا۔ اور آپ بھی کر سکتی ہیں۔

  • ڈوس نمویزی نلبامبا

    ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو صحافی

    داؤس نامویزی نلبامبا ڈی آر کانگو میں ایک صحافی ہیں اور اویزو افریکا نامی تنظیم کی بانی ہیں جس کا مقصد ہے کہ ملک میں صحافت اور ترببیت کی مدد سے خواتین کے حقوق پر کام کیا جائے اور انھیں آگے بڑھنے کے مواقعے دیے جائیں۔

    وہ ماہواری کے حوالے سے پائے جانے والے غلط تاثرات کے خلاف جنگ کرتی ہیں اور سیکس ایجوکیشن اور صحت و صفائی کے لیے کٹ طلبہ اور خواتین کو فراہم کرتی ہیں۔

    > ہمیں لڑکیوں اور خواتین کی ایک ایسی نسل بننا ہوگا جو تبدیلیوں کے باوجود ہمیشہ اپنے روز مرہ کے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئیں، اور جو ہمیشہ کہتی ہیں، ناممکن کچھ بھی نہیں!

  • ونیسا ناکاتے

    یوگانڈا ماحولیاتی کارکن

    23 سالہ ونیسا ناکاتے یوگانڈا میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک کارکن ہیں اور رائز اپ تحریک کی بانی ہیں۔ وہ بین الاقوامی طور پر مہم چلاتی ہیں جس کا مقصد ہوتا ہے کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی افریقی ممالک پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ان کی خصوصی توجہ اس بات پر ہے کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی غربت، جنگ و جدل اور جنسی تفریق میں اضافہ کر رہی ہے۔

    جنوری 2020 میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ناکاتے کو اس تصویر میں سے کاٹ دیا جس میں وہ گریٹا تھنبرگ اور دیگر یورپی ماحولیاتی تبدیلی کے کارکنوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ناکاتے نے اس کے بعد عالمی طور پر ماحولیاتی تبدیلی کے مہم میں نسلی تفریق کے بارے میں اپنی آواز اٹھائی۔ اے پی نے بعد میں ناکاتے کے ساتھ والی تصویر شائع کی اور کہا کہ ان کا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا، تاہم انھوں نے معافی نہیں مانگی۔ البتہ 27 جنوری کو اے پی کی ایگزیکیٹو ایڈیٹر سیلی بزبی نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے اے پی کی جانب سے معافی کا اظہار کیا۔

    > لاک ڈاؤن اور ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن ہم ہی اس کا حل ہیں۔ تعلیم دینے سے اور حقوق دینے سے خواتین کاربن کے اخراج میں کم لائیں گی اور مشکلات سے نمٹنے میں بہتر کام کریں گی تاکہ مستقبل میں ماحولیاتی امور کے لیے بہتر کردار ادا کر سکیں۔

  • ڈاکٹر ایتھلریڈا ناکملی مپنگو

    یوگانڈا ماہر ذہنی صحت

    ڈاکٹر ایتلریڈا نکیمولی-مپنگو یوگانڈا کی ماکرےرے یونی ورسٹی میں کام کرتی ہیں جہاں وہ معاشرے میں تھیراپی کے استعمال کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ بالخصوص وہ لوگ جو ڈیپریشن اور ایڈز کے مرض کا شکار ہوں وہ اس کو استعمال کریں۔

    انھوں نے ایک بہت موثر گروپ تھیراپی کا پروگرام شروع کیا ہے جو بہت مناسب قیمت کا ہے اور اس کی مدد سے ہیلتھ ورکرز مریضوص کو تھیراپی دے سکتے ہیں۔ اس کے نتائج میں نظر آیا ہے کہ اس کی مدد سے ڈیپریشن میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے اور لوگوں میں وائرس سے بچاؤ کی دوائیں لینے کا رجحان بڑھا ہے۔

    > اپنی ذہنی صحت کو ترجیح دیں اور اپنی طاقت واپس لیں۔

  • نندار

    میانمار فیمینسٹ سماجی کارکن

    نندار فیمینیسٹ وکیل، مترجم، قصہ گو اور دو پوڈ کاسٹ کی بانی ہیں جن کے نام فیمینسٹ ٹاک اور جی ٹاؤ زگر وئین ہے۔ انھوں نے پرپل فیمینسٹ کے نام سے گروپ قائم کیا ہے اور وجینا مونولوگ نامی سٹیج شو کو ڈائریکٹ کیا ہے۔

    میانمار کی شمال مشرقی ریاست شان میں گزرے بچپن کے دوران نندار کو ان تمام مشکلات کا سامنا رہا جو کسی بھی غیر روایتی خاتون طرز کی خاتون کو سہنی پڑتی ہیں۔ اب وہ اپنی پاڈکاسٹ کے ذریعے ممنوعہ موضوعات پر بات کرتی ہیں، مثلاً اسقاط حمل۔

    > میری خواہش ہے کہ زیادہ لوگ عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کام کریں تاکہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ سکیں جہاں ہر کسی کو اہمیت اور عزت دی جائے۔ مل جل کر ہم ایک بہتر، اور انصاف پسند دنیا قائم کر سکتے ہیں۔

  • ورنیٹا موبرلی

    امریکہ ماحولیاتی کارکن

    ورنیٹا موبرلی ایک ماں، ایک بیوی، ایک نانی اور ایک دوست ہیں۔ سالوں سے اپنے بڑوں کی مدد سے جمع کی ہوئی معلومات کی روشنی میں انھوں نے وہی معلومات اور طریقے اپنے انیوپیات قبیلے کی اگلی نسل تک پہنچائے ہیں۔ ان کا مقصد حیات ہے کہ وہ زمین کا تحفظ کر سکیں۔

    وہ کئی سالوں سے اپنے بڑوں سے معلومات اکٹھی کرتی چلی آ رہی ہیں اور انھوں نے اپنا تجربہ اگلی نسل تک منتقل کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد اپنی مٹی کی رکھوالی ہے۔

    > ماؤں، اپنا خیال رکھو۔ اپنے آباؤ اجداد کی معلومات سے رجوع کرو۔ ہم سب ملے ہوئے ہیں، ہم سب کے ایک ہی طریقے ہیں تاکہ ہم اپنے بچوں کی پرورش کر سکیں۔ اگر مشکلات بھی ہوں، تو اس کے مسائل کا حل ڈھونڈو۔

  • نیمونٹے نین قئمو

    ایکواڈور واؤرانی رہنما nemonte.nenquimo

    نیمونٹے نین قئمو ایکواڈور کے قبیلے واؤرانی سے ہیں اور ان کا مشن ہے کہ اپنے آباؤ اجداد کی زمین اور اس کی ثقافت اور ایمازون کے جنگلات میں بسنے والی زندگی کا تحفظ کریں۔

    نیمونٹے سیبو الائنس نامی ایک این جی او کی شریک بانی ہیں، ار وہ پاستازا صوبے میں واؤرانی آرگنائزیشن کی صدر ہیں، اور ٹائم میگزین نے انھیں دنیا کے سو سب سے متاثر کن افراد میں شامل کیا ہے۔

    > بحیثیت عورت ہم وہ طاقت رکھتے ہیں کہ ان خطرناک راستوں سے گزر سکیں، ایک ایسے وقت میں جب ہماری زمین اور پوری انسانیت خطرے میں ہے۔ یہی موقع ہے کہ دنیا بھر کی عورتیں متحد ہو جائیں۔

  • فیلس اومیڈو

    کینیا ماحولیاتی کارکن

    فیلس اومیڈو سینٹر فار جسٹس گورننس اینڈ اینوائرنمینٹل ایکشن کی بانی ہیں۔ وہ اس تنظیم کے ساتھ کینیا کے غریب طبقے کے ماحولیاتی اور سماجی اور معاشی حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں۔ 2015 میں انھیں ماحولیات کا ایک عالمی اعزاز ملا جس گرین نوبیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس اعزاز کی وجہ بنی تھی فیلس کا وہ کارنامہ جس میں انھوں نے ملک کے حصے اوئیونو اہورو میں تانبہ پگھلانے کی فیکٹری کو بند کروایا۔

    اس کے علاوہ جون 2020 میں انھیں ایک بڑے اہم مقدمے میں کامیابی حاصل کی جس کے تحت اوئیونو اہورو میں رہائش پذیر آبادی کو 1.3 ارب کینین شلنگز دیے گئے اور ان کی اپنی تنظیم کو 70 کروڑ شلنگز دیے گئے۔ البتہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہوا ہے اور اس پر اپیل جاری ہے۔

    > جس طرح دنیا بھر میں خواتین نے دشواریوں کا سامنا کیا اور سوچنے پر مجبور ہوئی کہ اپنا مقام کیسے حاصل کریں، اسی طرح قدرت کو بھی اس ماحولیاتی بحران سے نکلنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے اور صرف ایک عورت ہی اس مسئلے کو سمجھ سکتی ہے۔

  • ردھیما پانڈے

    انڈیا ماحولیاتی کارکن

    ردھیما پانڈے انڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک ماحولیاتی کارکن ہیں جنھوں نے نو برس کی عمر میں حکومتِ انڈیا کے خلاف ایک پٹیشن درج کی تھی تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اپنی سست روی کوختم کریں۔ 2019 میں مزید 15 بچوں کے ہمراہ جنھوں نے یہ پٹیشن دائر کی تھی، ردھیما نے پانچ ممالک کے خلاف اب اقوام متحدہ میں ایک اپیل فائل کی ہے۔

    ردھیما اب بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کر رہی ہیں تاکہ دیگر طلبہ کی بھی حوصلہ افزائی کر سکیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کے لیے لڑیں اور دنیا کے ماحول کو بچا سکیں۔ ردھیما نہ صرف اپنے مستقبل کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    > اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مضبوط بنیں اور متحد رہیں، اور یہ ثابت کریں کہ ہم مشکل حالات میں بھی کتنے قابل ہیں۔ اگر ایک عورت فیصلہ کر لے کہ اس کیا حاصل کرنا ہے، تو اسے اس مقصد سے کوئی نہیں روک سکتا۔

  • لورنا پرینڈرگاسٹ

    آسٹریلیا محقق ڈیمینشیا

    سنہ 2019 میں لورنا نے اس وقت شہ سرخیوں میں جگہ بنائی جب انھوں نے میلبورن یونیورسٹی سے 90 برس کی عمر میں اپنی ڈگری مکمل کی۔ انھوں نے اپنی ڈگری اپنے مرحوم شوہر، جن کے ساتھ انھوں نے زندگی کے 64 برس گزارے، اور ڈیمینشیا کے مریضوں کے نام کی۔

    بطور ایک محقق انھوں نے ڈیمینشیا کے مریضوں کی ضروریات کے بارے میں آگاہی پیدا کی ہے جس سے ایسے مریضوں کے معیار زندگی اور اپنی دیکھ بھال کرنے والے افراد کے ساتھ تعلق میں بہتری آ رہی ہے۔

    > اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی عمر کیا ہے، آپ جوان ہیں یا بوڑھے، آپ دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔

  • اوکسانا پشکینا

    روس ریاست ڈوما کی ڈپٹی

    اوکسانا پشکینا روسی ریاست ڈوما میں خاندان، خواتین اور بچوں کے سمائل کی کمیٹی کی ڈپٹی وائس چیئر ہیں۔

    سنہ 2018 میں جب متعدد خواتین صحافیوں نے ریاست ڈوما کی کمیٹی برائے بین الاقوامی امور کے چیئرمین لیونڈ سلٹسکی پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے تو اوکسانا وہ واحد پارلیمانی رکن تھیں جنھوں نے کھلے عام خواتین کی حمایت کی۔

    > سنہ 2020 میں دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے لیکن صدمات اور بحران کے باوجود میں نے جو بات سیکھی ہے وہ یہ کہ نئے چیلنج ہمیشہ لوگوں میں سے بہترین چیزیں نکال کر سامنے لاتے ہیں۔

  • سیبیلے ریسی

    برازیل معلمہ

    سیبیلے ایک ریٹائرڈ ہیڈ ٹیچر ہیں جنھوں نے ساؤ پالو میں پرائمری سکول کے بچوں کے لیے نسلی مساوات کی تعلیم کا آغاز کیا۔

    انھوں نے اپنے سکول کے سٹاف کے لیے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے انتظامیہ کے تمام قواعد کا جائزہ لیا چاہے کسی کی کوئی بھی نسل، صنف یا پوزیشن ہو۔

    > معاشرے میں بدلاؤ لانے کے لیے ہم نے جو عہد و پیمان کیے تھے، کورونا کے باعث اس سال ہمیں ان پر کام نہ کرنے کا ایک طرح کا بہانہ مل گیا ہے۔ لیکن میں امید کرتی ہوں کہ 2021 کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے خاطر خواہ توانائیاں جمع کر لیں ہیں۔

  • سوزینا رفالی

    وینزویلا ماہر غذائیت

    سوزینا ایک انسان دوست کارکن ہیں جنھوں نے 22 برس دنیا بھر میں ہنگامی حالات میں کام کیا ہے۔ انھوں نے کریٹاس ڈی وینزویلا کو ایک ایسا آلہ تیار کرنے میں مدد فراہم کی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وینزویلا میں جب اس بحران کو ماننے سے انکار کیا جا رہا تھا، اس وقت وہاں بچے انسانیت سوز بحران سے گزر رہے تھے۔ سوزینا نے جھونپڑیوں میں رہنے والے بچوں کے لیے غذائی امداد فراہم کرنے والے مراکز کا ایک نیٹ ورک بھی قائم کیا ہے۔

    سنہ 2020 میں انھوں نے وبائی مرض کے دوران کم آمدنی والے شہریوں، ایچ آئی وی کا شکار خواتین اور جیلوں میں قید نوجوانوں کے لیے کھانے کی خدمات جاری رکھیں۔ عذائیت کی مہم ’سکیلنگ اپ‘ کے ساتھ کام کرتے ہوئے سوزینا نے وسطی امریکہ میں وبا کے دوران غذائیت کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا مشورہ دیا۔

    > سب سے پہلے اپنی دیکھ بھال کریں اور وہاں سے آزادی حاصل کرنا شروع کریں۔ اس سے لاک ڈاؤن کا وقت آسانی سے کٹے گا۔

  • رتھ شیڈی

    پیرو ماہر آثار قدیمہ

    رتھ شیڈی نے آثار قدیمہ اور علم بشریات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور سان مارکوس کی نیشنل یونی ورسٹی کے شعبہ سوشل سائنس سے منسلک ہیں۔ وہ کارال آثار قدیمہ کے منصوبے پر تحقیق کرنے والے ادارے کی ڈائریکٹر ہیں جسے بر اعظم امریکہ میں سب سے پرانی تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ سنہ 2018 میں انھیں لورئیل یونیسکو کا وومن ان سائنس کا اعزاز بھی ملا اور اس کے علاوہ انھیں اپنے ملک پیرو کی کانگریس سے میڈل آف آنر بھی ملا ہے۔

    > خواتین کو ان سرگرمیوں کا حصہ بننا چاہیے جو تبدیلی کا فروغ دیتی ہیں اور ایسے معاشرے کو تعمیر کرتی ہیں جہاں انسان ایک دوسرے کے ساتھ اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے رہ سکیں۔

  • پاردیس سابیتی

    ایران کمپیوٹیشنل جینیٹسٹ

    پاردیس سابیتی ہارورڈ یونیورسٹی، دی بورڈ انسٹیٹیوٹ آف ایم آئی ٹی اینڈ ہارورڈ اور ہوورڈ ہیوز میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے ہیومن اینڈ مائیکروبیئل جنیومکس، انفارمیشن تھیوری، اور دیہی متعدی بیماریوں کی نگرانی اور مغربی افریقہ میں تعلیم کی کوششوں پر کام کیا ہے۔

    2014 میں وہ ایبولا سے لڑنے والی اس ٹیم میں شامل تھیں جنھیں جریدے ٹائم نے ’پرسنز آف دی ایئر‘ کا نام دیا تھا، اور جس نے انھیں ’100 بڑے با اثر لوگوں‘ میں بھی شامل کیا تھا۔ وہ تعلیمی ویڈیو سیریز ’ایگینسٹ آل اوڈز‘ کی میزبان اور راک بینڈ ’تھاؤزینڈ ڈیز‘ کی لیڈ سنگر بھی ہیں۔

    > ہم سب چیلنجز کا جرات مندی کے ساتھ سامنا کریں گے، بہتر دنیا کے لیے جنگ میں دوسرے اچھے لوگوں کے ساتھ یک جہتی اور قہقہے ہی ہمارے صبر اور کامیابی کے لیے اہم ہیں۔

  • پانوسایا ستھیجراواتناکو

    تھائی لینڈ طالب علم سماجی کارکن

    اس سال تھائی لینڈ میں بڑی تعداد میں جمہوریت پسند مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور اس میں 22 سالہ پانوسایا جیسی کئی طلبہ کا مرکزی کردار تھا۔ انھیں اور کئی اور سماجی کارکنان کو ان مظاہروں میں شرکت کرنے پر حراست میں لے لیا گیا لیکن بعد میں ان سب کی ضمانت پر رہائی بھی ہو گئی۔

    پانوسایا کے حراست کی ویڈیو لائیو سٹریم ہوئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ سادہ لباس میں ملبوس چار پولیس اہلکاروں نے انھیں زبردستی ایک ہوٹل سے نکل کر وہیل چئیر میں ڈالا اور پولیس کے ٹرک میں لے گئے۔ پانوسایا نے خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔

    اگست کے مہینے میں انھوں نے ایک سٹوڈنٹ مارچ میں دس نکاتی منشور پڑھا جس میں انھوں نے ملک کے بادشاہ سے ملکی سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے اس قدم پر پورے ملک میں حیرانی کا باعث تھا کیونکہ تھائی لینڈ میں بادشاہت کے خلاف بولنا بہت سخت جرم سمجھا جاتا ہے اور بادشاہ، ملکہ یا ولی عہد کے خلاف بات کرنے پر 15 سال کی جیل ہو سکتی ہے۔ پانوسایا نے کہا: ’میں ایک عام سی طالبہ ہوں جو یہ چاہتی ہے کہ اس معاشرے میں سب کو یکساں حقوق اور عزت ملے۔‘

    > ہر کوئی دنیا بدل سکتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں اور آپ کیا کرتے ہیں، پر اعتماد رہیے اور اپنی زندگی کو اس قابل بنایے۔

  • کیتھی سلیوین

    امریکہ سائنسدان، خلا باز

    کیتھی سلیوین ایک خلاباز اور سائنسدان ہیں اور ایک مصنفہ بھی ہیں۔وہ ان پہلی چھ خواتین کی فہرست میں شامل ہیں جنھوں نے 1978 میں ناسا کے خلابازی کے پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ پہلی امریکی خاتون ہیں جنھوں نے خلا میں ’سپیس واک‘ کی تھی۔

    لیکن کیتھی سلیوین کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے سمندر کے سب سے گہرے مقام پر غوطہ لگایا ہے اور اس کے بعد انھیں دنیا کا سب سے عمودی شخص کا خطاب دیا ہے کیونکہ وہ نہ صرف خلا میں گئیں بلکہ سمندر کے سب سے گہرے مقام تک گئیں۔

    > سنہ 2020 میں دنیا بہت بدل چکی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس سیارے پر ہماری زندگیاں ایک دوسرے پر کس قدر منحصر کرتی ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمیں واقعتاً کن چیزوں کی ضرورت ہے۔

  • لیا ٹی

    برازیل ٹرانس جینڈر ماڈل leat

    ماڈلنگ کرنے والوں میں سے اکثریت یہ نہیں کہہ سکتی کہ ان کی پہلی نوکری گیونچی کے لیے تھی لیکن یہ اعزاز ملا لیا ٹی کو۔ وہ ماڈلنگ کے شعبے میں دس سال سے کام کر رہی ہیں اور کئی معتبر جریدوں جیسے میری کلئیر، گرازیا اور ووگ میں ان کی تصاویر شائع ہو چکی ہیں۔

    سنہ 2016 میں لیا کو بطور پہلی ٹرانس جینڈر شخصیت یہ اعزاز ملا جنھوں نے برازیل کے اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ لیا پاپ کلچر کی ایک معروف شخصیت ہیں اور وہ ایل جی بی ٹی کیو افراد کے ساتھ متعصبانہ سلوک پر احتجاج کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنے کرئیر میں لوگوں کو اپنے تلقین کی ہے کہ وہ ان کی طرح اپنے خواب کی تعبیر کرنے کی لیے جد و جہد کریں۔

    > دنیا ہمیشہ تبدیل ہو رہی ہوتی ہے اور ہم ہمیشہ حرکت میں رہتے ہیں لیکن خواتین اکیلے نہیں چلی سکتی ہیں۔

  • انا تیجوکس

    فرانس موسیقار

    انا تیجوکس لاطینی امریکی ملک چلی سے تعلق رکھنے والی ایک ہپ ہاپ موسیقار ہیں۔ وہ ایک فیمینسٹ ہیں اور اپنے گانوں کے بول میں وہ سماجی اور ثقافتی تفریق کے بارے میں ذکر کرتی ہیں۔ ان کے والدین چلی کے آمر آگسٹو پینوشے کے دور میں ملک چھوڑ گئے اور اس بات نے ان پر بہت گہرا اثر کیا جس کی وجہ سے وہ سماجی اور سیاسی معاملات کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ 2014 میں انھوں نے خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کو اپنی البم وینگو میں شامل گانے ’اینٹی پیٹریارک‘ میں اجاگر کیا۔ انا ٹیجوکس دنیا بھر میں عدم مساوات اور ظلم و جبر کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرتی ہیں۔

    انھوں نے اپنے 2014 کے البم وینگو میں اینٹی پیٹریاارک گانے (پدرشاہی سماج کے خلاف) کے ساتھ، خواتین کے حقوق کی حمایت اور صنفی تشدد کی مخالفت کی۔ تیجوکس، دنیا میں عدم مساوات اور ظلم کے خلاف مہمات میں بلاناغہ حصہ لیتی ہیں۔

    > 2020 نے اقتصادی نظام کی نزاکت کو عیاں کر دیا ہے، اور اس نزاکت کے سامنے، ہمارے پاس ہمارے نیٹ ورک اور تعلقات کی طاقت ہے۔ ہمیں یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کیونکہ یہی ہماری اقدار اور ہماری طاقت ہے۔

  • اپل تومیتی

    امریکہ انسانی حقوق کی کارکن

    > اپل تومیتی انسانی حقوق کی ایک ایوارڈ یافتہ محافظ ہیں اور بلیک لائیو میٹرز کی تین خواتین شریک بانیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ نیو میڈیا اور ایڈوکیسی ہب ’ڈائیاسپورا رائزنگ‘ کی بانی بھی ہیں۔

    ان کی پیدائش امریکہ میں ہوئی جہاں ان کے والدین نائجیریا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ وہ 20 سال سے کئی ممالک میں انسانی حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    > لوگوں میں شعور آچکا ہے۔ اب ہم سب جان چکے ہیں کہ ناانصافی سے آنکھیں پھیرے کا مطلب ہے کہ آپ بھی شریکِ جرم ہیں۔ میں، باہمت اور پرعزم رہنے اور اپنی کمیونٹی سے تعلق بنائے رکھنے کے لیے سب کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔

  • سویٹلانا تخانووسکایا

    بیلا روس سیاستدان

    سویٹلانا تخانووسکایا بیلاروس میں سابق صدارتی امیدوار ہیں جہاں انھوں نے ملک میں جمہوری نظام کے حق میں تحریک کی قیادت کی۔ اگست 2020 میں صدر الیگزانڈر لوکاشنکو نے واضح اکثریت کے ساتھ انتخاب میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد ملک میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    سویٹلانا انتخابات کے بعد اپنے بچوں کی خاطر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی جس کے بعد وہ پڑوسی ملک لیتھونیا چلی گئیں جہاں سے وہ بیلاروس میں جمہوریت کے حق میں مہم چلا رہی ہیں۔

    > آپ ایک لمحے، ایک سیکنڈ کے لیے بھی کسی ایسے شخص پر یقینی نہ کریں جو آپ کو کمزور کہے۔ ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ کم کتنے مضبوط ہیں۔

  • یولیا سویٹکووا

    روس سماجی کارکن

    یولیا سویٹکووا روس کے انتہائی مشرقی علاقے میں ایک صنعتی قصبے میں پیدا ہوئی جہاں انھوں نے آرٹ او رقص اور ڈائیرکٹنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے تھیٹر سے سماجی کام کرنا شروع کیا اور خواتین کے حقوق کے بارے میں اور ایل جی بی ٹی کیو، ماحولیات اور جنگ مخالفت کے موضوعات پر آواز اٹھائی۔

    سنہ 2019 میں ان پر فحاشی کے پھیلاؤ کا الزام لگا اور ’ایل جی بی ٹی کیو پراپگینڈا‘ کرنے کے الزام میں تین مقدمات درج ہوئے۔ ان کو چھ سال جیل قید کی سزا ہونے کا امکان ہے اور اس کی وجہ بنی ان کی عورت کے جسم کی خاکہ کشی کرنا جسے انھوں نے انٹرنیٹ پر پھیلایا تھا، لیکن وہ ان الزامات کی ترید کر چکی ہیں۔ روس کے انسانی حقوق کے اداروں نے انھیں سیاسی قیدی قرار دیا۔

    > بدسلوکی کبھی برداشت نہ کریں چاہے یہ حکومت، معاشرے یا آپ کی ساتھی کی جانب سے ہی ہو۔ آپ مضبوط ہیں اور آپ کے پاس دنیا بدلنے کی طاقت ہے۔ اس سے کویی فرق نہیں پڑتا کہ وقت کتنا برا ہے، خواب دیکھتے رہیے اور جدوجہد کرتے رہیں۔

  • عروسی اوندا

    میکسیکو سماجی کارکن

    جہاں میکسیکو میں ایک جانب خواتین کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، عروسی اور ان کی فیمینسٹ تنظیم بروجاس ڈیل مار وہاں خواتین کی آواز بن کر سامنے آئی ہیں۔

    اس سال ان کی تنظیم نے ملک میں خواتین کو جذبہ دیک کہ وہ پورے ملک میں نو مارچ کو ہڑتال کریں، کام پر نہ جائیں اور گھر پر رہیں۔

    > اس وقت ایسے بہت سے نعرے ہیں جیسے ’انقلاب فیمنیسٹ ہو گا‘ اور ’حقوق نسواں مستقبل ہے‘ لیکن مستقبل پہلے ہی یہاں آ چکا ہے۔ ہمیں بہادر رہ کر آگے بڑھتے رہنا ہو گا۔

  • اناستازیا وولکوا

    یوکرین کاروباری شخصیت

    ڈاکٹر اناستازیا وولکوا ایک کاروباری شخصیات اور کھیتی باڑی کے شعبے میں جدت لانے کا کام کرتی ہیں اور اس سلسلے میں وہ غذائی قلت کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

    سنہ 2016 میں انھوں نے فلوراسیٹ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی جو ڈرون اور سٹیلائٹ کی مدد سے کسانوں کو فصلوں کی پیداوار بہتر کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

    > وہ تبدیلی بنیے جو آپ دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم سب اس صورتحال میں فائدہ اٹھانے اور مثبت تبدیلی کے راستے تلاش کر لیں گے۔

  • کوچاکورن ووراخوم

    تھائی لینڈ لینڈسکیپ آرکیٹیکٹ kotch_voraakhom

    کوچاکورن ووراخوم خود کو ’تھائی لینڈ کی ایک سخت جان لینڈ سکیپ آرکیٹیکٹ‘ کہتی ہیں۔ انھوں نے اپنے کام کا آغاز وسیع و عریض بینکاک شہر کے پرانے اور بوسیدہ نظارے کو نئے اور جدت پسند نظریات سے بدلنے کے مقصد کے ساتھ شروع کیا۔

    وہ اب عوامی مقامات کے بہتر استعمال کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہیں۔ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی لڑائی میں بڑے شہروں کی مدد کر رہیں ہیں۔

    > اگر ہمارا پورا شہر ڈوب رہا ہے تو بڑے سے بڑا ماہرِ تعمیرات اسے بچانے کے لیے کیا کرے گا؟ اس سے پہلے کہ ہم مزید تعمیرات کریں، ہمیں موسمیاتی تبدیلی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن ایک واحد کمیونٹی ، ملک یا خطے کی حیثیت سے نہیں۔۔۔ ہمیں متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا ہمارا گھر ہے اور اسے ٹھیک کرنے کا واحد راستہ مل کر کام کرنا ہے۔

  • سیکوسی ولز

    برطانیہ سائنسدان

  • الین ولیمز

    ویلز، برطانیہ ڈس ایبیلیٹی بلاگر

    ایلن ایک لکھاری اور معذور افراد کے لیے آواز اٹھانے والی خاتون ہیں، جو 16 سال کی عمر سے ہی اپنے بلاگ ’مائے بلرڈ وژن‘ میں مائے ایلجک اینسیفالومیلاییٹس (ایم ای) اور ریٹی نائٹس پگمینٹوسا (آنکھ کی ایک بیماری) جیسی بیماریوں کے متعلق اپنے تجربات لکھ رہی ہیں۔

    وہ اپنے تجربات کے متعلق ایماندارانہ اور کھلے انداز میں لکھتی ہیں، جس میں وہ اپنی حالت کے متعلق مشوروں سے لے کر اس کے جذباتی اثرات، انھیں جن سماجی رکاوٹوں کا انھیں سامنا ہے، اور فیشن کی صنعت تک رسائی کو فروغ کی ضرورت، سبھی کچھ شیئر کرتی ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے اس امید کے ساتھ آگہی بڑھانے اور ایسی صورت حال سے دو چار دوسرے افراد کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں اپنے مواد میں مثبت سوچ پروتی ہیں۔

    > ایسا راستہ تلاش کریں جو آپ کی تخلیقی صلاحیت، توانائی، سوچ، درد اور خوشیوں کو بڑھائے، اور سبھی مثبت چیزوں کو گلے لگائے جن کو وہ لا سکتا ہے۔ آپ کو وہ چیز ملنی چاہیئے جو مکمل طور پر آپ کی ہو، بغیر کسی بیرونی طاقت کے اس کے مقصد پر اثر انداز ہوئے۔

  • ایلس وونگ

    امریکہ

    ایلس ڈس ایبیلیٹی وزیبیلیٹی پراجیکٹ کی بانی ہیں، یہ معذور لوگوں کے لیے نچلی سطح کی ایک مہم ہے جس میں ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کہانیاں ریکارڈ کریں۔

    اس سال انھوں نے ایک نیا انتخاب شائع کیا ہے جس کا نام ’ڈس ایبیلیٹی وزیبیلیٹی: فرسٹ پرسن سٹوریز فرام دی ٹوینٹی فرسٹ سینچری‘ ہے۔

    سنہ 2020 میں دنیا بہت بدل چکی ہے اور میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ چیزیں ’معمول‘ پر واپس آ جائیں۔

  • لیو یی سن

    سنگاپور ڈاکٹر

    ڈاکٹر لیو یی سن سنگاپور کا سٹیٹ آف دی آرٹ نیشنل سینٹر فار انفیکشیئس ڈیزیز چلاتی ہیں، جو قابل ترسیل امراض کی وبا سے نمٹنے کا ذمہ دار ہے۔

    کووڈ۔19 کے خلاف ملک کی جنگ میں سب سے آگے والے محاذ میں ڈٹے رہنے کے علاوہ انھوں نے کئی دہائیوں سنگاپور میں ایچ آئی وی کیئر کی بہتری کے لیے کام کیا اور کئی متعدی بیماریوں، جیسا کہ سارس، کے پھیلاؤ کے دوران ٹیموں کی سربراہی کی۔ وہ کام کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تین بچوں کی ماں کا کردار بھی خوب نبھا رہی ہیں۔

    > کووڈ۔19 نے ہر ایک کی زندگی بدل دی ہے۔ تاہم اس نے عورت کی قیادت کی اہمیت نہیں بدلی۔ جو سب سے اگلی صفوں میں وائرس کا مقابلہ کر رہے ہیں ان میں زیادہ تر خواتین ہیں، اور وہ یہ حوصلے، طاقت اور لچک کے ساتھ کرتی ہیں۔

  • مشیل یوہ

    ملائیشیا اداکارہ michelleyeoh_official

    مشیل یوہ نے ہانگ کانگ کی مارشل آرٹس کی فلموں میں جو عموماً مردوں کی دنیا ہے، اپنے سٹنٹس خود کر کے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ وہ بطور بانڈ گرل ہالی وڈ منتقل ہو گئی (انھوں نے ٹومورو نیور ڈائیز میں کام کیا) اور وہ ایشیا کی ان چند خواتین اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے امریکہ میں ایک لمبا اور کامیاب کیریئر گذارا ہے۔

    اس صنعت میں 30 سال سے زیادہ عرصہ گذارنے کے بعد مشیل کو نئی اوتار فلموں اور مارول کی پہلی ایشیائی سپر ہیرو والی فلم شینگ چی میں اچھے کردار ملے ہیں۔ وہ اکثر ہالی وڈ میں ایشیائی نمائندگی میں کمی کے متعلق بات کرتی ہیں، اور بطور اقوامِ متحدہ کے خیر سگالی کے سفیر 2030 میں غربت کے خاتمے کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

    > کووڈ۔19 نے ہم سب کو متاثر کیا ہے، لیکن عورتیں زیادہ بوجھ اٹھا رہی ہیں۔ یاد رکھیں ہم اکیلی نہیں ہیں۔ اگر ہم تنہا محسوس کریں تو ہمیں لازمی مدد مانگنی چاہیئے۔ سپورٹ نیٹ ورک کا ہونا اب پہلے سے بہت زیادہ اہم ہے۔

  • گلناز زوزبايفا

    کرغستان gulnazzhuzbaeva

    کرغزستان میں 5000 سے زیادہ لوگ بصری خرابی کے مریض ہیں، لیکن بہت زیادہ سرکاری دستاویز ان کی پہنچ سے باہر ہیں۔ گلناز زوزبايفا جو کہ کرغز فیڈریشن آف دی بلائنڈ کی بانی ہیں، بڑی جانفشانی سے اس کام میں لگی ہوئی ہیں کہ بصری خرابی کے شکار افراد کو یہ مواد بریل میں دستیاب ہو اور اس تک ان کی رسائی ہو۔

    ان کی ٹیم نابینا افراد کے لیے ایک پروگرام چلاتی ہے تاکہ انھیں وہ ہنر مہیا کیا جائے جو ملازمت حاصل کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ 2020 میں پروگرام پورا کرنے والے 22 بالغوں میں سے چھ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور دو کو یونیورسٹی میں داخلہ مل چکا ہے۔

    > زندگی چیلنجز سے بھری پڑی ہے، اس کا ایسا سامنا کریں جیسے یہ آپ کو ملی ہے۔